کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 348
عمدہ ترین چراگاہ میں چرانے لے جاتا ہے، انہیں خاردار اور زہریلی گھاس سے بچا بچا کے رکھتا ہے، درندوں سے ان کی حفاظت کرتا ہے اور سردی گرمی سے ان کو محفوظ رکھتا ہے۔‘‘ اے امیرالمومنین! جان لیجئے کہ اللہ نے حدود کو اس لیے اتارا ہے تاکہ ان کے ذریعے خبائث وفواحش کو روکے۔ تو جب خود آپ کے مقربین ان فواحش کے مرتکب ہوں گے تو ان کا سدباب کیونکر ہوگا؟ اور اللہ نے قصاص کے حکم کو اتارا اور اس میں بندوں کی حیات رکھ دی لیکن تب کیا ہوگا جب وہی لوگ قتل کرنے پر اتر آئیں جنہوں نے قصاص لینا تھا؟ اے امیرالمومنین! موت، اس کے بعد کی زندگی اور اس وقت کے سازوسامان اور اعوان وانصار کی قلت کو یاد رکھ۔ پس موت اور موت کے بعد کی بڑی گھبراہٹ کے لیے توشہ ابھی سے لے لے۔ اے امیرالمومنین! جان لے کہ جس منزل میں تو اب ہے، اس کے علاوہ بھی تیری ایک منزل ہے جس میں تم کو لمبے زمانے تک قیام کرنا ہے جب تیرے دوست تمہیں چھوڑ جائیں گے اور تجھے ایک گڑھے میں اکیلا تنہا پھینک جائیں گے۔ پس تو اس وقت کے لیے توشہ اکٹھا کر لے جو تیرے لیے اس دن کام آئے گا، جب آدمی اپنے بھائی، ماں باپ اور بیوی بچوں سے بھاگے گا۔ اے امیرالمومنین! یاد کر جب قبروں کی چیزوں کو یعنی مردوں کو باہر نکالا جائے گا اور دلوں کے بھید ظاہر کر دیئے جائیں گے۔ پس اس دن سب بھید طشت ازبام ہو جائیں گے اور ہماری کتاب ہمارے ہر چھوٹے بڑے عمل کو ظاہر کر دے گی۔ اے امیرالمومنین! آج تمہیں مہلت ہے اس سے قبل کہ موت آجائے اور امیدیں ٹوٹ جائیں۔ اے امیرالمومنین! بندوں میں جاہلیت والا حکم نہ لگانا، ان کے ساتھ ظالموں والا سلوک نہ کرنا، کسی جابر سرکش کو ان کمزوروں پر مسلط نہ کرنا کہ یہ ظالم کسی عہد اور رشتہ کا ذرا پاس لحاظ نہیں کرتے، وگرنہ تم ان ظالموں کے گناہوں کو بھی اپنے کندھوں پر لے کر لوٹو گے۔ تمہیں وہ لوگ دھوکے میں نہ ڈالیں جو خود تو مزے اڑائیں اور ان کا وبال تمہارے سر ڈال دیں اور وہ تمہاری آخرت کی نعمتوں کو برباد کر کے دنیا میں عیش کرتے پھریں۔ آج جو اقتدار اور طاقت تمہیں حاصل ہے اسے مت دیکھ۔ دیکھنا ہے تو کل کو دیکھ کہ تیری قدرت کا اس وقت انجام کیا ہوگا جب تو موت کی زنجیروں میں گرفتار ہوگا۔ اور فرشتوں، پیغمبروں اور رسولوں کے مجمع میں رب کے آگے کھڑا کیا جائے گا اور اس زندہ اور قائم کے سامنے چہرے جھکے ہوں گے۔ اے امیرالمومنین! اگرچہ میں تمہیں نصیحت کرتے ہوئے اس درجے تک تو نہیں پہنچ سکا جس تک مجھ سے پہلے عقل والے پہنچے لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں نے تیری خیر خواہی اور شفقت میں کوئی کمی نہیں کی۔ میرے اس خط کو یوں سمجھنا جیسے کوئی دوست اپنے بیمار دوست کو اس کی بیماری کا علاج بتلاتا ہے اور اسے کڑوی اور ناگوار دوائیں پلاتا ہے محض اس امید پر کہ میرے دوست کو صحت مل جائے اور اسے عافیت نصیب ہو۔