کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 347
چاہتے تھے۔ وگرنہ وہ حسن بصری رحمہ اللہ کو اپنے میں کیوں شمار کرتے؟[1]معتزلہ نے تو نہ جانے اور کس کس کو محض زورا زوری سے معتزلی بنا ڈالا ہے، ان کی جرأت کو داد دیجئے کہ انہوں نے اپنے پہلے طبقہ کے لوگوں میں حضرات خلفائے راشدین تک کو شمار کر ڈالا ہے اور کتنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو زبردستی معتزلی بنائے بیٹھے ہیں۔[2] کیا اس دھونس اور دھاندلی کی بھی کوئی حد ہے؟ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ان نامسعودوں نے ایسی بابرکت شخصیات کو محض یہ باور کروانے کے لیے معتزلی بنا ڈالا کہ معتزلہ (ان کے منہ میں خاک) اس امت کا سب سے متقی اور نیکو کار طبقہ ہے۔[3]
امت مسلمہ اور بالخصوص طالبان علوم دینیہ کا ہر ہر فرد اس بات کو خوب جانتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دامن اس ’’بد‘‘عقیدے کے داغ سے پاک تھا، بلکہ وہ تو نہج نبوت پر چلنے والی جماعت اہل سنت کے سردار، سرخیل، رہنما اور میر کارواں تھے۔
۵۔ حسن بصری رحمہ اللہ کے نزدیک امام عادل کا تصور
ہم دیکھتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے خلیفہ بننے کے بعد حسن بصری آپ کے بہت قریب آجاتے ہیں آپ کو وعظ ونصیحت کرتے ہیں اور آپ کے لیے ’’امام عادل‘‘ بننے کا ایک نہج مقرر کرتے ہیں۔ یہ حسن بصری رحمہ اللہ کا وہ ایجابی کردار تھا جوہر عالم ربانی سے مطلوب ہوتا ہے جن کا وظیفہ حیات اصحاب اقتدار کی نصرت اسلام پر معاونت ومساعدت کرنا ہوتا ہے۔ بلا شبہ حسن بصری رحمہ اللہ کا یہ کردار ان کے کامل ہونے کی دلیل ہے اور بتلاتا ہے کہ آپ کی اسلامی شخصیت کس قدر مکمل تھی۔ آپ نے وعظ وارشاد، تعلیم و تربیت اور جہاد کے تینوں محاذوں کو بیک وقت سنبھال رکھا تھا، لوگوں کی معاشرتی زندگی کی اصلاح آپ کی اولین ترجیح تھی۔ آپ نے لوگوں کے دلوں کے امراض تشخیص بھی کیے اور ان کے علاج بھی تجویز کیے۔ آپ نے ظالم حکمرانوں کے خلاف زبردست انقلابی تحریکیں بھی چلائیں۔ لیکن جب آپ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے قریب آئے، مظالم کے خلاف ان کی کمر مضبوط کی اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اصلاحی اور تجدیدی کاموں میں ان کے دست وبازو بنے تو آپ کی سیاسی شخصیت اور بھی زیادہ نکھر کر سامنے آئی۔ چنانچہ آپ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اے امیرالمومنین! جان لیجئے کہ رب تعالیٰ نے امام عادل کو ہر کج کے لیے سدھار، ہر ظالم کے لیے اعتدال، ہر مفسد کے لیے صلاح، ہر کمزور کے لیے طاقت، ہر مظلوم کے لیے انصاف اور ہر پریشان حال کے لیے جائے قرار بنایا ہے۔ اے امیرالمومنین! امام عادل اس چرواہے کی طرح ہوتا ہے جو اپنے اونٹوں پر بے حد شفیق اور مہربان ہوتا ہے۔ وہ اپنے جانوروں کا ایسا دوست ہوتا ہے جو انہیں
[1] القضاء والقدر: ص ۱۸۹۔
[2] ایضًا
[3] مذاہب الاسلامیین: ۱/ ۴۰۔ از عبدالرحمن بدوی۔