کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 346
سے خارج سمجھتے ہیں اور اسی اصل سے اختلاف ہی واصل بن عطاء کے آپ کی مجلس سے جدا ہونے کا سبب بنا تھا۔ بھلا اس بنیادی اختلاف کے ہوتے ہوئے حسن بصری کو علمائے معتزلہ میں کیونکر شمار کیا جا سکتا ہے؟[1]
و: سب سے اہم بات یہ ہے کہ کتب روایات میں مشہور ہے کہ بعض قدری معتزلہ آپ کے بارے میں کذب بیانی اور دروغ بافی میں لگے رہتے تھے۔ عبداللہ بن امام احمد رحمہ اللہ نے ’’کتاب السنۃ‘‘ میں اس بات کے ثبوت میں متعدد روایات ذکر کی ہیں۔ جن میں سے ایک روایت وہ ہے جسے وہ حمید سے نقل کرتے ہیں وہ کہتے ہیں: ’’حسن مکہ آئے تو مکہ کے فقہاء حسن بن مسلم اور عبداللہ بن عبید نے مجھے کہا کہ حسن آئے ہوئے ہیں کیا اچھی بات ہو جو آپ ان سے اس بات کی درخواست کرتے کہ ایک دن وہ ہمیں بھی دے دیتے تاکہ اس میں ہم ان کے پاس بیٹھتے اور گفتگو کرتے۔ میں نے حسن سے جا کر کہا: ’’اے ابو سعید! یہ آپ کے بھائی چاہتے ہیں کہ آپ ایک دن انھیں بھی دیں۔‘‘ حسن بصری نے ایک دن کا ان سے وعدہ کر لیا۔ چنانچہ وعدہ کے دن علماء آپ کے پاس اکٹھے ہوگئے۔ اس دن آپ نے جو فصیح و بلیغ گفتگو کی ویسی گفتگو کرتے نہ میں نے پہلے کبھی آپ کو دیکھا اور نہ کبھی بعد میں۔ لوگوں نے ان سے خوب سوالات کیے۔ صرف ایک مسئلہ میں آپ سے خطا ہوئی۔ ایک آدمی نے آپ سے پوچھا: ’’اے ابو سعید! شیطان کا خالق کون ہے؟ آپ نے دو مرتبہ سبحان اللہ پڑھا پھر فرمایا: ’’کیا اللہ کے سوا بھی کوئی دوسرا خالق ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’شیطان کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے اور خیر اور شر کا خالق بھی اللہ ہی ہے۔‘‘ اس پر ایک آدمی بول پڑا: ’’اللہ ان معتزلیوں کا ستیاناس کرے کہ ان شیخ پر کس قدر جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘[2]
ایک شخص عمرو بن عبید سے حسن بصری کے واسطے سے حدیث نقل کیا کرتا تھا۔ حمید نے ان صاحب کو منع کرتے ہوئے کہا کہ ’’عمرو سے حدیث روایت نہ کیا کرو کیونکہ یہ حسن بصری رحمہ اللہ پر جھوٹ بولتا ہے۔‘‘[3]
عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ حماد بن زید سے روایت کرتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں: ’’کسی نے ایوب سختیانی سے پوچھا کہ یہ عمرو بن عبید حسن بصری رحمہ اللہ سے یہ حدیث روایت کرتا ہے کہ ’’نبیذ پی کر نشے میں آنے والے کو کوڑے نہ مارے جائیں گے‘‘، تو ایوب کہنے لگے: ’’ابن عبید جھوٹ بولتا ہے میں نے خود حسن کو یہ کہتے سنا ہے کہ ’’نبیذ پی کر نشے میں آنے والے کو کوڑے مارے جائیں گے۔‘‘[4]
یہ روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ حسن بصری کے قدری ہونے کا یا اس بات کا دعویٰ کہ وہ قدریہ کا قول کرتے تھے پایہ صحت کو نہیں پہنچتا۔[5] دراصل قدریہ حسن بصری کو اپنی طرف منسوب کر کے اپنا نام اونچا کرنا
[1] موقف المعتزلۃ من السنۃ النبویۃ: ص۲۷۔
[2] کتاب السنۃ لابن الامام احمد: ۲/ ۱۲۶۔
[3] کتاب السنۃ: ۲/ ۱۳۱۔
[4] ایضًا : ۲/ ۱۳۲۔
[5] القضاء والقدر فی ضوء الکتاب والسنۃ: ص۱۹۱۔