کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 345
ہے، اسی نے ہم کو اس پر ابھارا ہے۔ اس پر رب تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْہَآ اٰبَآئَ نَا وَ اللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo} (الاعراف: ۲۸) ’’اور جب وہ کوئی بے حیائی کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اس پر پایا اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ کہہ دے بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا تم اللہ کے ذمے وہ بات لگاتے ہو جو تم نہیں جانتے۔‘‘[1] لیکن کیا ان دونوں روایات میں ایسی کوئی بات ہے جو حسن بصری رحمہ اللہ کے قدری ہونے پر دلالت کرے؟ اس کا جواب بالکل واضح اور بدیہی ہے کہ آپ نے ان دونوں اقوال میں دراصل ان لوگوں کا رد کیا ہے جو اپنے کفر اور معاصی کے لیے تقدیر کو آڑ اور دلیل بناتے ہیں۔ اس بات کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں اور حسن بصری کا کلام برحق ہے۔[2] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’کئی لوگوں پر قدری ہونے کی تہمت لگائی گئی حالانکہ وہ قدری نہ تھے بلکہ بات یہ تھی کہ وہ گناہوں کے لیے تقدیر کو آڑ بنانے کے قائل نہ تھے۔ امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ’’کیا ابن ابی ذؤیب قدری تھے؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’جو آدمی بھی گناہوں کے بارے میں شدید رائے رکھتا ہے۔ لوگ اسے قدری کہنا شروع کر دیتے ہیں اسی لیے تو لوگوں نے حسن بصری رحمہ اللہ کو بھی قدریہ کہہ دیا تھا۔‘‘[3] د: اب اس غلط گمان کے رد میں چند روایات ملاحظہ کیجئے! غفرہ کے آزاد کردہ غلام عمر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ’’اہل قدر خود کو حسن بصری کی طرف منسوب کرتے تھے۔ حالانکہ ان کے خیالات تو یہ تھے، چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اے ابن آدم! رب کی ناراضی مول لے کر کسی کو راضی مت کر اور رب کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت مت کر، اور کسی پر اللہ کا فضل دیکھ کر اس کی تعریف میں نہ لگ جا، اور جس نعمت سے تو محروم ہے اس بارے کسی کو ملامت نہ کر، بے شک مخلوقات اور ان کے اخلاق (اور رویے) سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ پس اللہ نے ان کو جن اخلاق پر پیدا کیا تھا، وہ اسی پر اس دنیا سے گزر گئے، جو اپنی روزی بڑھانا چاہتا ہے وہ ذرا اپنی عمر تو بڑھا کے دکھا دے، یا اپنا رنگ بدل کے دکھا دے یا اپنی بنیادوں اور پوروں کو بڑھا کر دکھا دے۔‘‘[4] ھ: پھر یہ بھی سب جانتے ہیں کہ سب معتزلہ کا پانچ بنیادی باتوں پر اتفاق ہے جن میں ایک ’’دو درجوں میں ایک درمیانی درجے کا قائل ہونا‘‘ ہے جبکہ حسن بصری رحمہ اللہ اس قول کو بدعت اور اس کے قائل کو اہل سنت
[1] القضاء والقدر: ص ۱۸۸۔ [2] ایضًا [3] منہاج السنۃ: ۱/ ۳۶۲۔ [4] الطبقات الکبری: ۷/ ۱۷۵۔