کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 344
ہے کہ اس خط کی حسن بصری کی طرف نسبت ہی پایہ صحت کو نہیں پہنچتی اور معتزلہ جن اقوال کو حسن بصری کی طرف منسوب کرتے ہیں ان سب کی اسناد منقطع ہے۔ مثلاً ابن مرتضی کی اس طول طویل روایت کا حال ہی دیکھ لیجئے کہ جب وہ اہل عدل وتوحید کو شمار کرتے ہیں تو ان کی صف میں حسن بصری رحمہ اللہ کو بھی کھڑا کرتے ہیں۔ پھر ان کا طول طویل ترجمہ نقل کرتے ہیں اور جب انہیں اہل عدل میں سے ثابت کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو یہ لکھ دیتے ہیں: ’’حسن بصری کے اہل عدل ہونے کی دلیل وہ روایت ہے جس کو علی بن جعد نے بیان کیا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں نے حسن بصری کو یہ کہتے سنا ہے کہ جو یہ گمان رکھتا ہو کہ معاصی اللہ کی طرف سے ہیں تو وہ روز قیامت سیاہ چہرے کے ساتھ آئے گا، پھر انہوں نے اپنی بات کی دلیل میں یہ آیت تلاوت کی: {وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تَرَی الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلَی اللّٰہِ وُجُوْہُہُمْ مُسْوَدَّۃٌ اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْمُتَکَبِّرِیْنَo} (الزمر: ۶۰) ’’اور قیامت کے دن تو دیکھے گا کہ وہ لوگ جنھوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ان کے چہرے سیاہ ہو ں گے، کیا جہنم میں ان متکبروں کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں ؟‘‘ مذکورہ علی بن جعد جو اس روایت میں یہ کہتا نظر آتا ہے کہ ’’میں نے حسن کو سنا‘‘ اس کی تو حسن بصری رحمہ اللہ سے ملاقات اور سماع ہی ثابت نہیں۔[1] لہٰذا یہ روایت ہی منقطع ہے۔[2] اور ایسی روایت سے حسن بصری رحمہ اللہ کا معتزلی ہونا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ج: ابن قتیبہ حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں ذکر کرتے ہیں کہ ’’انہوں نے ابتدا میں قدر کے بارے میں کچھ گفتگو کی تھی، پھر اس سے رجوع کر لیا تھا۔‘‘ لیکن اس کے فوراً بعد ہی ابن قتیبہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’عطاء بن یسار اور معبد جہنی آپ کے پاس آکر آپ سے یہ پوچھا کرتے تھے کہ ’’اے ابو سعید! یہ ملوک وامراء مسلمانوں کے خونوں سے اپنے ہاتھ رنگتے ہیں، ان کے مال لوٹ لیتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے ہیں: ’’ہمارا یہ سب کیا دھرا رب کی تقدیر سے ہے۔‘‘ تو آپ برجستہ کہتے: ’’یہ اللہ کے دشمن جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘[3] آگے ابن قتیبہ لکھتے ہیں: یہ اور اس جیسے دوسرے اقوال کی بنا پر آپ کو قدری کہا جاتا ہے۔[4] حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی اس جیسی ایک روایت اور بھی ہے، آپ فرماتے ہیں: ’’اور بالکل سچ فرماتے ہیں کہ ’’رب تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عربوں کی طرف مبعوث فرمایا، اس حال میں کہ اہل عرب قدر اور جبر کا عقیدہ رکھتے تھے، وہ کہتے تھے کہ یہ جو بت پرستی ہم کر رہے ہیں یہ رب کی مشیت اور اس کے حکم سے
[1] القضاء والقدر: ص ۱۸۷۔ [2] القضاء والقدر: ص ۱۸۷۔ [3] القضاء والقدر: ص ۱۸۷۔ [4] القضاء والقدر: ص ۱۸۷۔