کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 343
بارے میں معتزلہ کا نظریہ پیش کیا ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حسن بصری رحمہ اللہ کے یہ رسائل مشہور ہیں۔[1] شیخ محمد ابوزہرہ اس بات کو ثابت کرنے میں بڑے پر جوش نظر آتے ہیں کہ حسن بصری قدر کے باب میں معتزلہ کے ہم مذہب تھے۔[2]
دلائل وبراہین سے خالی ان دعوؤں کے رد کے دلائل کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
الف: حسن بصری رحمہ اللہ کے معتزلہ سے بری ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خود معتزلہ قطعیت کے ساتھ حسن بصری کو اپنے عقائد ومسائل کی طرف منسوب نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ابن مرتضیٰ کو دیکھتے ہیں کہ جب وہ حسن بصری اور ان کی طرف منسوب قدر کے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں:
’’اگر تو یہ کہے کہ ایوب سختیانی روایت کرتے ہیں کہ میں نے حسن بصری کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے ساتھ قدر پر گفتگو کرنا چاہی تو انہوں نے کسی قسم کی بات کرنے سے گریز کیا۔‘‘ تو میں اس کا یہ جواب دوں گا کہ ’’روایت کیا جاتا ہے کہ انہیں سلطان کا ڈر تھا اس لیے اس موضوع پر وہ گفتگو کرنے سے باز رہے۔‘‘[3]
(مولف موصوف ڈاکٹر صلابی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں) لیکن کیا حسن بصری کا شمار ان لوگوں میں کیا جا سکتا ہے جو اظہار حق کے باب میں سلاطین سے ڈرتے ہوں؟ حسن بصری تو ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سلاطین کے سامنے ڈٹ کر حق کا اظہار کیا اور اس فرض کو ادا کرنے میں کبھی ادنیٰ قسم کی کوتاہی کے بھی مرتکب نہ ہوئے تھے۔
ب: رہے وہ خطوط جن کو حسن بصری کی طرف منسوب کر کے ان کی آڑ میں حسن بصری کو معتزلی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے، تو علامہ شہرستانی ان خطوط پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میں نے وہ خط خود دیکھا ہے جس کو بظاہر حسن بصری کی طرف منسوب کیا گیا ہے، جس میں حسن بصری عبدالملک کے قدر اور جبر کی بابت پوچھے گئے سوالات کے جوابات دے رہے ہیں اور ان کے وہ جوابات معتزلہ کے مذہب کے موافق ہیں اور ان میں وہ آیات قرآنیہ اور دلائل عقلیہ سے استدلال کرتے بھی نظر آتے ہیں اور شاید وہ واصل بن عطا کو لکھا گیا ہے۔‘‘ لیکن یاد رہے کہ حسن بصری ان لوگوں میں سے ہرگز نہ تھے جو اس عقیدہ میں اسلاف کے مخالف ہوں کہ ’’اچھی بری تقدیر سب اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘ اور یہ وہ عقیدہ ہے جس پر اسلاف کا اجماع ہے۔[4] (بھلا اس اجماعی عقیدے کی حسن بصری جیسا آدمی کیونکر مخالفت کر سکتا ہے) حقیقت یہ
[1] القضاء والقدر فی ضوء الکتاب والسنۃ ومذاہب الناس: ص ۱۸۶۔
[2] تاریخ الجدل، ص: ۳۲۱۔ ۳۲۲۔
[3] المنیۃ والامل: ص ۱۵۔
[4] القضاء والقدر فی ضوء الکتاب والسنۃ، ص ۱۸۶۔