کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 342
ج: محمد بن واسع:
آپ امام ربانی اور قدوہ ہیں۔[1] میں نے عبدالملک کے دور کی فتوحات کے ضمن میں ان کا تفصیلی ترجمہ ذکر کیا ہے۔ ابن واسع قتیبہ بن مسلم کے لشکر کے ایک دلیر مجاہد تھے۔ آپ مدت تک خراسان میں رہے۔[2]مالک بن دینار کہتے ہیں: ’’قاری تین قسم کے ہیں، رحمن کا قاری، دنیا کا قاری اور حکمرانوں کا قاری۔ اے لوگو! میرے نزدیک محمد بن واسع رب رحمان کا قاری ہے۔‘‘[3] حسن بصری آپ کو قراء کی زینت کہا کرتے تھے۔[4]
محمد بن واسع کہتے ہیں: ’’جب بندہ اپنا دل اللہ کی طرف متوجہ کر دیتا ہے تو اللہ بندوں کے دل اس کی طرف پھیر دیتے ہیں۔‘‘ اور فرماتے ہیں: ’’تقویٰ کے ساتھ دعا ہو تو تھوڑا عمل بھی کافی ہے۔‘‘[5]
یہ حسن بصری رحمہ اللہ کے چند مشہور شاگردوں کا نہایت مختصر تذکرہ ہے جن کے زہد و سلوک نے لوگوں کی زندگیوں کو بے حد متاثر کیا، آج اس ناپید ہوتے علم کو زندہ کرنے کی ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ بالخصوص جبکہ آج اس علم کو ان لوگوں نے سنبھال رکھا ہے۔ جو فاسد عقائد، بیمار تصورات اور کج افکار کے مالک ہیں۔ لہٰذا امت کو اسی نہج تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے اصول و فروع کتاب وسنت، سیرت صحابہ رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنے والے راسخ علمائے دین کی سیرت سے ماخوذ ہوں تاکہ دور حاضر کے ان مادی حملوں کا مقابلہ کیا جا سکے ان اور شہوانی طوفانوں کے آگے سدسکندری بن کر کھڑے ہو سکیں جن کو عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے روئے زمین کے چپے چپے پر پھیلا دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ امت کی ترقی اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ شہوتوں کے آگے بند باندھا جائے۔ اور دلوں کو نفسانی امراض سے پاک کر کے ان میں اعلی روحانی صفات جیسے خوف ورجاء اور اخلاص وانابت جیسی بلند معنوی خوبیوں کو پیدا کیا جائے۔
۴۔ حسن بصری رحمہ اللہ کی اعتزال سے براء ت کا بیان
معتزلہ بزعم خویش یہ سمجھتے ہیں کہ حسن بصری بھی قدر کی بابت ان کے ہم خیال اور ہم مذہب ہیں۔ چنانچہ معتزلہ داؤد بن ابی ہند سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے حسن بصری کو سنا، وہ یہ کہہ رہے تھے ’’سوائے معاصی اور ذنوب کے ہر ش اللہ کی قضاء وقدر سے ہے۔‘‘[6] یہ لوگ چند خطوط بھی اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں جو ان کے بقول حسن بصری نے عبدالملک بن مروان کو بھیجے تھے جن میں آپ نے قدر کے
[1] سیر اعلام النبلاء: ۶/ ۱۱۹۔
[2] تاریخ التصوف الاسلامی: ص ۲۱۷۔
[3] الحلیۃ: ۲/ ۳۴۵۔
[4] تاریخ التصوف الاسلامی: ص۲۱۴۔
[5] سیر اعلام النبلاء: ۶/ ۱۲۱۔
[6] المنیۃ والامل: ص ۱۲ لابن المرتضٰی۔