کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 341
’’جس نے خود کو دنیا کی رونق اور زیب وزینت سے دور کر لیا وہ ہوائے نفس پر غالب آگیا۔‘‘[1]
ہم نے چور کو چرا لیا:…… کہتے ہیں کہ آپ کے گھر میں ایک چور گھسا، بہت ڈھونڈا پر اسے چرانے کو کچھ نہ ملا، وہ پریشان بیٹھا تھا کہ آپ نے اسے آواز دی: ’’بھائی! اگر دنیا کی کوئی چیز ہاتھ میں نہیں آئی تو آخرت کی ہی کوئی چیز لے لو؟‘‘ وہ بولا: ٹھیک ہے تو آپ نے فرمایا: ’’وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھو۔‘‘ اس نے ایسا ہی کیا، پھر تھوڑی دیر بعد آپ مسجد کو چل دئیے، کسی نے پوچھا: ’’یہ صاحب کون ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’آئے تو تھے ہماری چوری کرنے پر ہم نے ان کو چرا لیا۔‘‘[2]
دنیا کی سب سے پاکیزہ چیز رب کی معرفت ہے:…… مالک کہتے ہیں، ’’دنیا والے دنیا کی سب سے پاکیزہ اور لذیذ ترین چیز چکھے بغیر ہی دنیا سے چلے گئے۔‘‘ پوچھا گیا کہ وہ کیا ہے؟ فرمایا: ’’رب کی معرفت۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مالک بن دینار کے ساتھ محبت:…… مالک بیان کرتے ہیں کہ میں اور ثابت بن یزید رقاشی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے ہماری طرف ایک نظر دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے کس قدر مشابہ ہو، تم لوگ مجھے اپنے کئی بیٹوں سے زیادہ محبوب ہو۔ البتہ فضیلت میں وہ لوگ تم جیسے ہیں میں صبح کی دعاؤں میں تم لوگوں کو ضرور یاد رکھوں گا۔‘‘[3]
ذریعہ معاش:…… آپ چار ماہ میں قرآن کریم کا ایک نسخہ لکھ لیتے تھے۔ پھر آپ اس کی اجرت سبزی فروش کو جمع کروا دیتے اور اس سے کھاتے رہتے۔ سال بھر میں آپ کے سالن کا خرچ دو فلس ہوتا تھا جو نمک ہوتا تھا۔[4]
وفات:…… آپ کی وفات میں دو اقوال ہیں، ۱۲۷ہجری کا اور ۱۳۰ہجری کا۔[5]آپ علمائے اہل سنت میں سے تھے اس لیے آپ کی سیرت کے بارے میں ان آثار وروایات کی طرف مطلق نہ دیکھا جائے جو واہی اور روح اسلام کے خلاف ہیں۔[6]بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ آپ علم سلوک کے بڑے عالم اور حسن بصری کے مایہ ناز شاگردوں میں سے تھے۔ آپ کا شمار انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، احنف بن قیس، سعید بن جبیر، محمد بن سیرین اور قاسم بن محمد جیسے علمائے اہل سنت کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔[7]
[1] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۳۶۳۔
[2] ایضًا
[3] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۳۶۴۔
[4] ایضًا
[5] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۳۶۴۔
[6] تاریخ التصوف الاسلامی: ص ۲۰۷۔
[7] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۳۶۲۔