کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 34
بیٹی بولی: ’’آج انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا اور اس نے لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ دودھ میں پانی نہ ملایا جائے۔‘‘
اس پر ماں نے کہا: ’’بیٹی ! اٹھ اور دودھ میں پانی ملا دے، توتوایسی جگہ بیٹھی ہے جہاں عمر اور ان کا منادی تمہیں نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
بیٹی بولی: ’’ماں ! اللہ کی قسم ! مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا کہ جلوت میں تو عمر کی اطاعت کروں اور خلوت میں نافرمانی۔‘‘
جناب عمر رضی اللہ عنہ ماں بیٹی میں ہو نے والی یہ ساری گفتگو سن رہے تھے۔ آپ نے اسلم سے کہا: ’’ اسلم ! اس دروازے پر نشانی لگادو اور یہ جگہ پہچان لو‘‘ اس کے بعد آپ نے معمول کے مطابق گشت پورا کیا ، صبح ہونے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اسلم! اس جگہ چلو اور چل کر دیکھتے ہیں کہ وہ بات کرنے والی عورت اور جواب دینے والی لڑکی کون تھی اور کیا اس عورت کا خاوند زندہ ہے ؟ (روای کہتے ہیں ) پس میں چل کر اس جگہ پہنچا۔ میں نے جاکر معلوم کیا کہ وہ لڑکی غیرشادی شدہ تھی۔ وہ عورت بھی گھر میں موجود تھی۔ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ میں نے جاکر یہ سب کچھ جناب عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گوش گزار کر دیا۔ ساری کارگزاری سن کر جناب عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے سب بیٹوں کو اکٹھا کر کے ان سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی کو شادی کی ضرورت ہے۔ اس پر عاصم نے عرض کیا: اباجان! میری اب تک شادی نہیں ہوئی میری شادی کر دیجیے۔ چنانچہ آپ نے پیغام بھیجا اور اس لڑکی کی شادی اپنے بیٹے عاصم سے کردی۔ رب تعالیٰ نے عاصم کو اس لڑکی سے ایک بیٹی عطا فر مائی۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اس نیک بخت بیٹی کے بیٹے ہیں ۔[1]
کہتے ہیں کہ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک رات ایک خواب دیکھا۔ آپ خواب میں یہ کہہ رہے تھے کہ کاش مجھے اپنے بیٹوں میں سے اس ’’علامت والے‘‘ بیٹے کی خبر ہوجاتی جو اس زمین کو اسی طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح وہ اس سے قبل ظلم وجور سے بھری تھی۔ [2]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ آل خطاب کا خیال تھاکہ جس نوجوان کی بشارت دی گئی تھی وہ بلال بن عبداللہ ہے کیونکہ اس کے چہرے پر مسا (بڑاتل) تھا۔ یہاں تک کہ جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ پیدا ہوئے۔[3] (تب سب کو معلوم ہوا کہ اس بشارت کا مصداق تو وہ ہیں )
ولادت اور جائے ولادت:…آپ کے سن ولادت میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ راجح قول ۶۱ ھ کا ہے اور یہی اکثر مؤرخین کا قول ہے۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آپ کا انتقال ۴۰ سال کی عمر
[1] سیرۃ عمر،ص: ۲۰ از ابن حکم۔
[2] سیراعلام النبلاء: ۵/۱۲۲۔
[3] سیراعلام النبلاء : ۵/۱۲۲