کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 339
’’اہل ہوا کے پاس نہ تو اٹھو بیٹھو اور نہ ان سے بحث مباحثہ ہی کرو کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ یا تو وہ تم لوگوں کو ان بدعتوں کی طرف گھسیٹ لے جائیں گے جن میں وہ خود ڈوبے ہوئے ہیں یا پھر اس حق کو تم لوگوں پر مشتبہ کر دیں گے جس کی تمہیں معرفت حاصل ہے۔‘‘[1] ابوقلابہ کا یہ قول سنا کر ایوب کہتے ہیں کہ ’’اللہ کی قسم! ابوقلابہ عقل والے فقہاء میں سے تھے۔‘‘[2] مسلمانوں کے ساتھ ملتے ہوئے ان سے اللہ کے لیے محبت کرنا:…… ایوب کہتے ہیں: ’’جب حج کا موسم آتا ہے تو وہاں جانے کو میرا دل اور بھی زیادہ چاہنے لگتا ہے تاکہ وہاں ان دوستوں سے ملوں جن سے ابھی تک نہیں مل سکا۔‘‘[3] عبادت گزاری:…… آپ کی عبادت گزاری کی کثرت مشہور تھی، آپ عبادت بہت اچھے طریق سے کرتے تھے۔ آپ کی شدید خواہش ہوتی تھی کہ اپنی عبادت کو لوگوں سے چھپا کر رکھیں اور پورے اخلاص کے ساتھ عبادت کریں۔[4]آپ اہل بصرہ کے سردار، بڑے عبادات گزار، تبع تابعی اور ان فقہاء میں سے تھے جو علم وفضل اور زہد وعبادت میں خاص شہرت رکھتے تھے۔‘‘[5] ایوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کی بنا پر کثرت کے ساتھ حج اور عمرہ کیا کرتے تھے، ارشاد ہے: ’’حج اور عمرہ کو لگاتار کرو۔‘‘[6] اسی لیے آپ نے چالیس تک حج کیے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ آپ اپنی شب بیداری کو نہایت چھپا کر رکھتے تھے، چنانچہ جب صبح ہوتی تو یوں آواز نکالتے جیسے ابھی ابھی بیدار ہوئے ہوں۔[7] زہد:…… ایوب فرماتے ہیں: دنیا میں زہد تین قسم کا ہے، ان میں سے اللہ کو سب سے زیادہ محبوب اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بلند اور عظمت والا زہد یہ کہ اللہ کو چھوڑ کر بندوں کی عبادت سے زہد اختیار کرنا ہے (یعنی سب سے بے نیاز ہو کر ایک اللہ کی عبادت میں لگ جانا ہے) چنانچہ ہر بادشاہ، صنم، حجر، شجر اور وثن کی عبادت سے زہد اختیار کر لینا (یعنی ان سب سے بے نیاز ہو جانا) اللہ کے نزدیک سب سے اونچا زہد ہے۔ زہد کا دوسرا درجہ یہ لینے اور دینے میں رب تعالیٰ نے جو چیز حرام قرار دی ہے اس سے زہد اختیار کرنا ہے۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اے قاریوں کی جماعت! تمہارا یہ زہد کہ حلال سے زہد اختیار کرنا یہ اللہ کے نزدیک زہد کا سب سے کم درجہ ہے۔‘‘[8]
[1] الامام ایوب السختیانی، از دکتور سلیمان العربی: ص ۴۷۔ [2] البدع والنھی عنھا، لابن وضاح: ص ۴۸۔ [3] الامام ایوب السختیانی: ص ۴۸۔ [4] ایضًا : ص ۵۰۔ [5] مشاہیر علماء الامصار: ص ۱۵۰۔ رقم: ۱۱۸۳۔ [6] مسند احمد: رقم ۱۶۷۔ الحدیث صحیح بشواہد۔ [7] المعرفۃ والتاریخ: ۲/ ۲۴۱۔ [8] حلیۃ الاولیاء: ۳/ ۷۔