کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 338
کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ نے نعیم بن رضوان کو اکڑ کر چلتے دیکھا تو فرمایا: ’’ذرا ان صاحب کو تو دیکھو کیسے اکڑ کر چل رہا ہے حالانکہ اس کے ہر عضو میں اللہ کی ایک نعمت اور شیطان پر ایک لعنت ہے۔‘‘[1] ۳۔ حسن بصری رحمہ اللہ کے ممتاز شاگرد حسن بصری رحمہ اللہ ان علمائے سنت میں سے تھے جن کو علمِ سلوک کا بڑا اہتمام تھا، اسی لیے آپ کے گھر میں ایک خاص مجلس منعقد کی جاتی تھی جس میں صرف زہد و سلوک پر ہی گفتگو کی جاتی تھی۔[2] علمائے اہل سنت کی ایک جماعت جو علم وعمل کے روشن ستارے اور نیرتاباں تھے، حسن بصری رحمہ اللہ کے مدرسہ تصوف و سلوک سے بے حد متاثر ہوئے۔ ذیل میں ان میں سے چند ایک کا تذکرہ اختصار کے ساتھ قارئین کی نظر کیا جاتا ہے: الف: ایوب سختیانی: آپ امام حافظ سید العلماء ابوبکر بن ابی تمیمہ کیسان ہیں۔[3] حدیث میں ثقہ اور ثبت تھے۔ جامع عادل، متقی، پرہیزگار اور کثیر العلم تھے۔[4] اگر آپ سے ایسی بات پوچھی جاتی جو آپ جانتے نہ ہوتے تو بلا تکلف فرما دیتے کہ ’’میں علماء سے پوچھ کر بتلاؤں گا۔‘‘ اور اکثر تو ’’لا ادری‘‘ فرما دیتے تھے۔ حتی کہ حماد بن یزید کہہ اٹھے کہ ’’میں نے ایوب اور یونس سے زیادہ کسی کو ’’لا ادری‘‘ کہتے نہیں سنا۔‘‘ آپ اپنے زہد کو لوگوں سے مخفی رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ’’اپنے زہد کو چھپا رکھنا یہ اس کے ظاہر کرنے سے بہتر ہے۔‘‘[5]آپ نے چالیس حج کیے تھے۔ حضرت عبیداللہ بن عمر حج کے دنوں میں ان لوگوں سے مل کر بے حد خوش ہوتے تھے جن کے دل ایمان کے نور سے روشن تھے جن میں ایک ایوب سختیانی بھی تھے۔[6] آپ یزید بن ولید بن عبدالملک کے دوست تھے لیکن جب یزید خلیفہ بنا تو آپ نے یہ دعا مانگی: ’’اے اللہ! تو یزید کو ہمارا ذکر بھلا دے۔‘‘[7] آپ لوگوں کے ساتھ بے حد خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔[8] ب: ایوب سختیانی کے چند ملفوظات اور مختلف امور میں آپ کا مؤقف اہل سنت کا ادب واحترام:…… ایوب کہتے ہیں: ’’جب بھی مجھے اہل سنت میں سے کسی کے مرنے کی اطلاع ملتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میرے بدن کا کوئی ٹکڑا کٹ کر الگ ہوگیا ہو۔‘‘[9] اہل ہوا اور بدعتیوں کے بارے میں آپ کا موقف:…… ایوب کہتے ہیں کہ ’’بدعتی اپنی بدعت میں جس قدر بڑھتا جاتا ہے اللہ سے اتنا ہی دور ہوتا جاتا ہے۔‘‘[10]آپ ابو قلابہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ
[1] الزہد: ص ۹۰۔ [2] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۵۷۹۔ [3] سیر اعلام النبلاء: ۶/ ۱۵۔ [4] الطبقات: ۷/ ۲۴۶۔ [5] تاریخ التصوف الاسلامی: ص ۱۸۹ از دکتور بدوی۔ [6] الحلیۃ: ۳/۴۔ [7] الحلیۃ: ۳/ ۶۔ [8] تاریخ التصوف الاسلامی: ص۱۸۹۔ [9] الحلیۃ: ۳/ ۹۔ [10] الحلیۃ: ۳/ ۹۔