کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 337
حاصل کی اور پھر صبر کیا۔ اور جن لوگوں نے بصیرت حاصل کر کے بھی صبر نہ کیا ان کے دلوں میں گھبراہٹوں نے ڈیرے ڈال لیے۔ پھر وہ اپنا مطلوب نہ پا سکے۔ اور جو چھوڑ آئے اس کی طرف لوٹ بھی نہ سکے۔ پس وہ دنیا وآخرت دونوں میں نامراد ٹھہرے، اور یہی کھلا صاف اور صریح گھاٹا ہے۔‘‘[1] آپ کا قول ہے: ’’ایک گھڑی کا غور و فکر کرنا رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘[2] آپ فرماتے ہیں: ’’غور و فکر کرنا یہ تیرا آئینہ ہے جو تجھے تیری نیکیاں اور بدیاں سب دکھلا دیتا ہے۔ پس جس نے غور و فکر کا سہارا لیا بامراد ہوا اور جس نے غور و فکر سے غفلت برتی وہ رسوا ہوا۔‘‘[3] علم اور علماء:…… حسن بصری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’فہم‘‘ علم کا برتن ہے اور ’’علم‘‘ عمل کا رہنما ہے اور ’’عمل‘‘ خیر کا قائد ہے، اور خواہش نفس گناہوں کی سواری ہے اور مال اکڑ بازوں کی بیماری ہے، دنیا آخرت کا بازار ہے اور اس شخص کے لیے پوری پوری ہلاکت ہے جس نے رب کی نعمتوں کے ساتھ اس کی نافرمانیوں پر کمرکس لی۔‘‘[4] آپ فرماتے ہیں کہ ’’پہلے لوگ جب علم حاصل کرتے تھے تو انہیں اپنے خوف، عمل، زبان، نگاہ اور نیکی سب میں علم نظر آتا تھا۔‘‘[5] ج: لمبی لمبی امیدوں کی ممانعت اور تکبر کی مذمت لمبی لمبی امیدوں کی ممانعت: حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مومن دنیا میں پردیسی ہے وہ اسے اپنا تابع بنانے کا پختہ ارادہ نہیں کرتا اور نہ دنیا والوں کی ریس کرتا ہے اور نہ دنیا کے دھوکے میں آتا ہے، لوگ اس سے راحت میں ہوتے ہیں اور وہ خود میں مگن رہتا ہے۔ مبارک ہے اس کے لیے جس نے حلال کمایا اور زائد کو اپنے فقر و فاقہ کے دن کے لیے آگے بھیج دیا اور اس زائد مال کو وہاں رکھا جہاں رکھنے کا رب نے حکم دیا تھا نا کہ وہاں خرچ کر ڈالا جو نقصان کا باعث بنا۔‘‘[6] آپ فرماتے ہیں: ’’جس نے لمبی لمبی امیدیں باندھیں وہ اپنے عمل کو خراب کر بیٹھا۔‘‘[7] آپ ایک نہایت عبرت آمیز بات فرماتے ہیں کہ ’’اے ابن آدم! تو ’’چند دن‘‘ ہے۔ پس جو دن بھی گزرتا جائے گا تو اتنا گھٹتا اور کم ہوتا جائے گا۔‘‘[8] تکبر کی ممانعت: حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اے ابن آدم! تو کس بنا پر اکڑتا ہے حالانکہ تم دو مرتبہ پیشاب کے رستے سے گزرے ہو۔‘‘[9]
[1] الزہد: ص ۸۳۔ [2] ایضًا [3] ایضًا [4] الزہد: ص ۹۲۔ [5] ایضًا [6] الزہد: ص ۸۱۔ [7] الزہد: ص ۸۲۔ [8] الزہد: ص ۸۱۔ [9] الزہد: ص ۹۰۔