کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 336
عبرت ونصیحت حاصل کرنا اور غور و فکر کرنا:…… ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِo} (آل عمران: ۱۹۰)
’’بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں عقلوں والوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔ ‘‘
اور فرمایا:
{وَفِیْ اَنفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَo} (الذاریات: ۲۱)
اور خود تمہارے نفوس میں (اس کی قدرت کی بے شمار نشانیاں ہیں) تو کیا تم دیکھتے نہیں؟‘‘
بے شک کائنات، اپنی ذات میں اور رب تعالیٰ کی بے شمار پھیلی نشانیوں میں غور و فکر کی نگاہ ڈالنا ایمان کا ایک قوی داعیہ ہے۔ کیونکہ ان موجودات میں خالق کی ذات کی ایسی عظمت کا نشان ملتا ہے جو اس کی قدرت وعظمت کا پتا دیتی ہیں۔ جیسے کائنات کا عقلوں کو حیران کر دینے والا مضبوط ومستحکم اور نہایت عمدہ مربوط اور منضبط نظام جس میں کہیں اختلاف، اضطراب، تخلف، تصادم، کمزوری اور جھول دکھائی نہیں دیتا، جو رب تعالیٰ کے وسیع علم اور شامل وکامل حکمت کا پتا دیتا ہے۔ پھر اس نظام کائنات میں ودیعت کیے گئے بے شمار منافع اور بے پناہ نعمتیں جو گننے میں نہیں آسکتیں جو رب تعالیٰ کی بے پناہ اور وسیع رحمت اور اس کے وجود اور احسان پر دلالت کرتی ہیں یہ سب باتیں اس بات کی داعی ہیں کہ اس کائنات اور اس میں رکھی بے شمار نعمتوں کے خالق ومالک کا ادب کیا جائے، اس کو مانا جائے، اس کی عبادت کی جائے، اس کا شکر ادا کیا جائے۔ زبان کو اس کے ذکر سے تر رکھا جائے اور دین کو اس کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کی جائے۔ بے شک یہی ایمان کی روح اور اس کا بھید ہے۔[1]
یہی تفکر و اعتبار کی وہ عبادت ہے جن کی طرف حسن بصری رحمہ اللہ نے دعوت دی، اور لوگوں کو اس عبادت پر ابھارا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’بے شک سب سے افضل عمل ورع اور تفکر ہے۔‘‘[2]اور فرمایا: ’’جس کو اپنے رب کی معرفت حاصل ہوگئی وہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور جس نے دنیا کو دیدہ عبرت وا کر کے دیکھ لیا وہ دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اور مومن وہ ہے کہ جب تک وہ غافل نہ ہو لہو ولعب میں مبتلا نہیں ہوتا اور جب فکر کرتا ہے تو غمگین ہو جاتا ہے۔‘‘[3]
آپ فرماتے ہیں: ’’اللہ اس بندے پر رحم کرے جس نے غور کیا اور فکر کی اور پھر عبرت پکڑی پھر بصیرت
[1] شجرۃ الایمان للسعدی: ص۴۹۔
[2] الزہد: ص ۸۲۔
[3] الزہد: ص ۸۳۔