کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 335
(یعنی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو) پایا ہے جو دنیا سے اس سے کہیں زیادہ منہ موڑ کر بھاگتے تھے حالانکہ دنیا ان کی طرف دوڑی آتی تھی۔ جتنا تم دنیا پر مرے جاتے ہو حالانکہ دنیا تو تم لوگوں کو پیٹھ دیئے چلی جا رہی ہے۔ اے ابن ہبیرہ! میں تمہیں اس مقام سے ڈراتا ہوں جس سے اللہ نے تمہیں ڈرایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَ خَافِ وَ عِیْدِo} (ابراہیم: ۱۴) ’’یہ اس شخص کے لیے جو (قیامت کے دن) میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور میرے عذاب سے خوف کرے۔‘‘ ’’اے ابن ہبیرہ! اگر تم اللہ کی اطاعت کر کے اس کی معیت حاصل کر لو تو وہ تمہیں یزید بن عبدالملک کے فتنہ سے بچا لے گا۔ اور اگر تم نے اللہ کی نافرمانی کر کے یزید کا ساتھ دیا تو اللہ تمہیں اس کے حوالے کر دے گا۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ ’’ابن ہبیرہ یہ سن کر اس قدر رویا کہ داڑھی تر ہوگئی اور وہ آنسو گراتا گراتا اٹھ کھڑا ہوا، پھر اگلے دن اس نے ان دونوں بزرگوں کو جانے کی اجازت بھی دے دی اور دونوں کے لیے تحائف بھی بھیجے، البتہ شعبی رحمہ اللہ کے لیے کچھ کم جبکہ حسن بصری رحمہ اللہ کے لیے زیادہ تحائف تھے۔ یہ دیکھ کر شعبی نے مسجد میں جا کر یہ وعظ کیا: ’’اے لوگو! جو اللہ کو مخلوق پر (یعنی دنیا ) ترجیح دے سکے تو وہ ایسا ضرور کرے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! حسن جو جانتے تھے میں اس سے جاہل بنا رہا۔ البتہ میں نے ابن ہبیرہ کی خوشنودی چاہی تو اللہ نے مجھے اس سے دور کر دیا۔‘‘[1] حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اللہ کے امر کی مخالفت نہ کرو کہ اس کے امر کی مخالفت ایک ایسے گھر کو آباد کرنے کا ارادہ ہے جس کو ویران کرنے کا اللہ نے فیصلہ کر رکھا ہے۔‘‘[2] ارشاد باری تعالیٰ ہے: {فَاِنَّہٗ کَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًاo} (الاسراء: ۲۵) ’’تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخش دینے والا ہے۔‘‘ حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’اواب وہ ہے جو اپنے علم اور عمل دونوں کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو۔‘‘[3] آپ فرمایا کرتے تھے: ’’اللہ اس بندے پر رحم کرے جو تگڑا تھا اور اس نے اپنی قوت کو رب کی اطاعت میں لگا دیا یا کمزور تھا تو خود کو اس کی نافرمانی سے روکے رکھا۔‘‘[4]
[1] الزہد: ص ۷۶۔ [2] ایضًا [3] الزہد: ص ۷۷۔ [4] الزہد: ص ۷۷۔