کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 333
آپ فرماتے ہیں: ’’اے ابن آدم! تو عبادت گزاروں کا لبادہ پہنتا ہے اور عمل فاسقوں والا کرتا ہے۔ عاجز بندوں کی طرح انکساری دکھاتا ہے اور دیکھتا دھوکے میں پڑے لوگوں کی طرح ہے۔ تیرا ناس ہو کہ یہ مخلصوں کی شان نہیں، بے شک تو روز قیامت اس ذات کے سامنے کھڑا ہوگا جو آنکھ کی خیانت اور سینوں کی پوشیدہ باتوں تک کو جانتا ہے۔‘‘[1] حسن بصری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ ’’سعید بن جبیر کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو بیماروں اور بے جان لوگوں کی طرح عبادت کر رہا تھا تو آپ نے اسے کہا: ’’اے بھتیجے! اسلام زندہ ہے اسے زندہ (بنا کے) رکھ اور مار نہیں اللہ تجھے مارے اور (کبھی) زندہ نہ کرے۔‘‘ آپ فرمایا کرتے تھے: ’’جس نے بھرے مجمع میں اپنی مذمت بیان کی، دراصل اس نے اپنی مدح بیان کی اور برا کیا۔‘‘[2] ۱۔ طاعت الٰہی پر ابھارنا:…… ارشاد باری تعالیٰ ہے: {یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo} (النسآء: ۵۹)ٖ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹائو، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔‘‘ اور فرمایا: {وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہُ اِِلَی اللّٰہِ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبِّیْ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِِلَیْہِ اُنِیْبُo} (الشوریٰ: ۱۰) ’’اور وہ چیز جس میں تم نے اختلاف کیا، کوئی بھی چیز ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے، وہی اللہ میرا رب ہے، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ۔‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا آتَوا وَقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ} (المومنون: ۶۰) ’’اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں۔‘‘
[1] الزہد: ۱۶۰۔ [2] ایضًا