کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 331
جنازہ کو اس کی قبر کی طرف لے گئے۔ ہم نے بشر کو دفن کیا اور لوٹ گئے، انہوں نے بھی اپنے جنازہ کی تدفین کے بعد واپسی کی راہ لی۔ اتنے میں نے ذرا مڑ کر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ بشر کی اور اس حبشی کی قبر میں کوئی فرق بھی تو نہیں تھا۔‘‘ پس میں نے اس سے زیادہ عجیب منظر کبھی نہیں دیکھا۔[1] علماء نے اور بھی متعدد امور ذکر کیے ہیں جن کو دل کی سختی دور کرنے میں زبردست تاثیر حاصل ہے جیسے یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ احسان کرنا، برباد بستیوں کو نگاہِ عبرت سے دیکھنا، ہلاک شدہ قوموں کے کھنڈر دیکھنا اور دنیا سے گزر جانے والوں کے ٹھکانے دیکھ کر عبرت پکڑنا وغیرہ۔[2] ب: اخلاص، رب کی اطاعت اور باہمی صلح کرانے اور فکر کرنے کی دعوت دینا اخلاص:…… مکارم اخلاق میں اخلاص کو زبردست تاثیر حاصل ہے اخلاص دل کو مضبوط کرتا ہے اور آدمی کو رب کی خوشنودی کے لیے نیکیاں کرنے پر ابھارتا ہے اور دل میں یہ جذبہ پیدا کرتا ہے کہ نیکی کرنے کے بعد کسی کے شکریہ یا جزاء کا انتظار نہ کیا جائے۔ اخلاص احکام الٰہی کو بجا لانے، اس کی رضا طلب کرنے اور آخرت کی نعمتوں کو پانے کے لیے حلم و بردباری، عفو ودر گزر اور بلند اخلاق اپنانے کے لیے انسان کا سینہ کھولتا ہے۔ پھر اس کی محبت، نفرت اور ہر حال صرف اللہ کے لیے ہو جاتا ہے۔[3] جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo} (الانعام: ۱۶۲۔ ۱۶۳) ’’کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔‘‘ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جس نے خود کو لوگوں کے سامنے ایسی بات کے ساتھ آراستہ کیا جو اللہ اس سے نہیں جانتا (یعنی اس بات پر اس کا عمل نہیں وگرنہ اللہ اس کے ہر عمل کو ضرور جانتا ہے) تو وہ ویسا ہی ہے۔‘‘ (یعنی جھوٹا ہے اور اس کا وہ عمل اللہ کے لیے نہیں بلکہ مخلوق کے لیے ہے)۔ [4] آپ فرمایا کرتے تھے: ’’بعض صالحین سے مروی ہے، وہ فرماتے تھے کہ سب سے افضل زہد زہد کا چھپانا ہے۔‘‘[5] کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے لوگوں میں وعظ کیا تو ایک شخص نے درد بھرا گہرا سانس لیا تو آپ نے اس سے یہ کہا کہ
[1] البیان والتبیین: ۳/ ۱۴۷۔ [2] مجموع رسائل الحافظ ابن رجب: ۱/ ۲۶۴۔۲۷۰۔ [3] الاخلاق بین الطبع والتطبع: ص ۲۱۔ [4] حیاۃ الحسن البصری، روضۃ الحصری: ص ۱۷۰۔ [5] حیاۃ الحسن البصری: ص ۱۷۰۔