کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 330
ضبعیۃ المجاشعی کا انتقال ہوا جس نے اس بات کی وصیت کر رکھی تھی کہ اس کا جنازہ حسن بصری پڑھائیں گے تو آپ نے اس کے جنازہ میں شرکت کی۔ جنازہ میں بصرہ کے سر برآور دہ لوگ بھی تھے۔ اب حسن تو اپنے خچر پر سوار تھے جبکہ فرزدق اپنے اونٹ پر تھا۔ آپ نے فرزدق سے پوچھا، ’’لوگ کیا کہتے ہیں؟‘‘ فرزدق نے جواب دیا کہ ’’لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آج اس جنازہ میں ایک تو سب سے اچھے انسان نے شرکت کی ہے اور ان کی مراد آپ ہیں، دوسرے سب سے برے انسان نے شرکت کی ہے اور ان کی مراد میں ہوں۔‘‘ تب آپ نے فرمایا: ’’اے ابو فراس! نہ تو میں سب سے اچھا ہوں اور نہ تم سب سے برے ہی ہو۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’(اے ابوفراس!) تم نے اس دن کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے؟‘‘ بولا: ’’اسی سال سے لا الٰہ الا اللّٰہ کی شہادت تیار کر رکھی ہے: ’’غرض جنازہ پڑھانے کے بعد لوگ تو نوار کی قبر کی طرف چلے گئے تاکہ اسے دفنائیں اور فرزدق یہ اشعار پڑھنے لگا:
’’اگر اللہ نے مجھے معاف نہ کیا تو مجھے قبر کے بعد والے حالات سے ڈر لگ رہا ہے کہ اس وقت آگ بھڑک اٹھے گی اور قبر کو بے حد تنگ کر دیا جائے گا۔ اور یہ حالات یقینا خود قبر سے بھی زیادہ سخت ہیں اور جب قیامت کے دن میرے پاس ایک سخت لے جانے والا آئے گا جو فرزدق کو نہایت بے رحمی سے گھسیٹ کر لے جائے گا۔ اور اس گھر کی اولاد تباہ ہو جائے گی جس کو زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا اور ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی اور ان کو جہنم کی طرف تارکول کا لباس پہنا کر جو پھٹا ہوا ہوگا لے جایا جائے گا اور تم دیکھو گے کہ جب وہ جہنم میں پیاس کی شدت میں کھولتی ہوئی پیپ پئیں گے تو اس کی حدت کی شدت سے ان کا اندر کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔‘‘
یہ اشعار سن کر حسن اتنا روئے کہ آپ کے آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی۔ پھر آپ فرزدق سے لپٹ گئے اور فرمایا، اس سے قبل تم مجھے سب سے زیادہ ناپسند تھے پر اب تم مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘[1]
حسن بصری قبروں سے نصیحت پکڑتے اور ان کے احوال میں گہرا غور وفکر کرتے۔ ابو عوانہ کہتے ہیں: حسن بصری فرماتے ہیں ’’امیر مصر بشر بن مروان (خلیفہ عبدالملک بن مروان کا بھائی) ہمارے پاس آیا۔ اس وقت وہ بھر پور جوان تھا۔ بشر نے ہمارے پاس چالیس دن تک قیام کیا۔ پھر قدموں میں ایک چوٹ لگنے کے سبب وفات پا گیا۔ ہم تجہیز و تکفین کے بعد انہیں دفنانے قبر کی طرف لے چلے۔ جب ہم قبرستان پہنچے تو دیکھا کہ چار سوڈانیوں نے ایک جنازہ اٹھایا ہوا ہے۔ اتنے میں ہم نے بشر کا جنازہ نیچے رکھ کر اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ تو انہوں نے بھی اپنا جنازہ رکھ کر اس پر نماز ادا کی۔ پھر ہم بشر کو ان کی قبر کی طرف اور وہ سوڈانی اپنے
[1] الحسن البصری: ص ۳۴۵۔ نقلا عن البدایۃ والنھایۃ از دکتور مصطفی الخن۔