کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 33
کرتے تھے :
’’اس مومن پرحیرت ہے جو اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ اللہ اسے رزق دیتا ہے اور خرچ کرنے پراس کا بدل بھی دیتا ہے، پھر بھی وہ مال کو روک روک کر رکھتا ہے اور اجر عظیم اور حسن ثناء سے خود کو محروم رکھتا ہے۔‘‘
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ رب تعالیٰ سے بے پناہ ڈرنے والے تھے۔ اس بات کا اندازہ موت کے وقت ان کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے:
’’میری تمنا تھی کہ کاش میں کچھ بھی نہ ہوتا، کاش میں کوئی بہتا پانی یا سرزمین حجاز کی گھاس ہوتا۔‘‘[1]
والدہ ماجدہ:…سیّدنا عمر بن عبدالعز یز رحمہ اللہ کی والدہ ماجدہ جناب امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی پوتی ام عاصم بنت عاصم بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھیں جن کے والد ماجد سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بیٹے عاصم تھے۔عاصم کو ایام نبوت میں پیدا ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ کنیت ابو عمرو تھی۔ بڑے فقیہ تھے۔ قرشی اور عدوی نسبتیں تھیں ۔ والد امیر المومنین سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی۔ حضرت عاصم کی والدہ جمیلہ بنت ثابت بن ابی الاقلح انصاریہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔ عاصم دراز قد، مضبوط بدن، دیندار، سراپا خیر، صالح اور سربرآور دہ لوگوں میں سے تھے۔ فصاحت وبلاغت کے مالک اور شعر گوئی کا ملکہ رکھتے تھے۔ یہی سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نانا ہیں ۔ ۷۰ ھ میں جوار رحمت الٰہی میں تشریف لے گئے توآپ کے بھائی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے غم میں یہ شعر کہا:
’’کاش موت کے پیام اپنے پیچھے عاصم کا بدل چھوڑ جاتے تو پھر ہم اکٹھے جیتے یاپھر اکٹھے ہی اس دنیا سے رخصت ہوتے۔‘‘[2]
آپ کی نانی کا سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک نہایت ایمان افروز واقعہ ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن زبیر بن اسلم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کو مدینہ کی گلیوں کا گشت لگار ہے تھے۔ دراصل حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کو اہل مدینہ کی حفاظت کے لیے گشت لگاتے اور مشتبہ لوگوں کا سراغ لگایا کرتے تھے۔اچانک آپ ایک گھر کی دیورار کی طرف جھکے اور کان لگا کر سننے لگے۔ آپ نے سنا کہ ایک عورت اپنی بیٹی سے کہہ رہی ہے:
’’بیٹی! اٹھ کردودھ میں پانی ملادے۔‘‘
بیٹی جواب میں بولی: ’’ماں ! کیا تو نہیں جانتی کہ امیر المومنین نے کیا اعلان کیا ہے؟‘‘
ماں بولی: ’’بیٹی ! انہوں نے کس بات کا ارادہ کیاہے؟‘‘
[1] عبدالعزیز بن مروان،ص:۵۶۔
[2] سیر اعلام النبلاء :۴/۹۷