کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 328
موت کو کثرت سے یاد کرنا:…… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لذتوں کو توڑنے والی چیز (یعنی موت) کو کثرت کے ساتھ یاد کرو۔‘‘[1]
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’موت نے دنیا کو رسوا کر دیا اور عقل مند کے لیے اس میں خوشی کی کسی بات کو باقی نہیں رہنے دیا۔‘‘[2]صالح بن رسم کہتے ہیں کہ میں نے حسن بصری کو یہ بیان کرتے سنا: ’’اللہ اس شخص پر رحم کرے جس کو کثرت کے ساتھ نظر آتے لوگوں نے دھوکے میں نہ ڈالا، اے ابن آدم! تو اکیلا مرے گا، قبر میں اکیلا اترے گا اور روزِ محشر اکیلا اٹھایا جائے گا۔ اور تیرا حساب بھی اکیلے ہوگا۔ اے ابن آدم! تیرا نام رکھ دیا گیا ہے اور تجھے چاہ لیا گیا ہے۔‘‘[3]
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’آدمی موت کو کثرت کے ساتھ یاد کرنے کے اثر کو اپنے عمل میں دیکھ لیتا ہے اور جو لمبی لمبی امیدیں رکھتا ہے اس کا عمل خراب ہوتا ہے۔‘‘[4]
کہتے ہیں کہ حسن بصری نے ایک بوڑھے کو ایک جنازہ میں دیکھا تو تدفین سے فراغت کے بعد آپ نے اس سے کہا: ’’اے بوڑھے! میں تم سے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ اس مردے کی یہ تمنا ہے کہ اسے دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تاکہ یہ مزید عمل صالح کر سکے اور اپنے گزشتہ گناہوں پر توبہ واستغفار کر سکے۔‘‘ بوڑھا بولا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ تب آپ نے فرمایا: ’’ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم اس مردے جیسے نہیں بنتے۔‘‘ پھر آپ یہ کہتے ہوئے مڑ گئے: ’’کیسی نصیحت؟ بھلا اگر دل زندہ ہوتے تو اس سے بڑھ کر بھی کوئی نصیحت تھی؟ لیکن جن دلوں کو پکارا جا رہا ہے وہ مر چکے ہیں۔‘‘[5]
اور فرمایا: ’’جو یہ جانتا ہے کہ اسے موت کے گھاٹ اترنا ہے، قیامت اس کے وعدے کی جگہ ہے، اور رب جبار کے حضور اسے کھڑا ہونا ہے، تو اس کے لائق یہ ہے کہ وہ دنیا میں خوب حسرت کرے اور عمل صالح کی خوب رغبت کرے۔‘‘[6]
آپ فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں نے ایسی یقینی بات نہیں دیکھی جس میں شک کی گنجائش نہ ہو۔ پھر وہ ایسے شک میں بدل گئی ہو جس میں کوئی یقین نہ ہو، اور وہ یقینی بات موت ہے جس پر ہمارا یقین ہے لیکن اس کے باوجود ہم موت کے علاوہ کے لیے عمل کرتے ہیں۔‘‘[7]
آپ فرماتے ہیں: ’’اے اللہ کے بندو! رب تعالیٰ نے موت کے علاوہ تمہارے کسی عمل کے لیے وقت مقرر نہیں کر رکھا اس لیے عمل کرتے جاؤ کہ رب تعالیٰ فرماتے ہیں:
[1] سنن الترمذی، رقم: ۲۳۰۷۔
[2] الزہد: ص ۲۰۔
[3] الزہد: ص ۲۱۔
[4] ایضًا
[5] الزہد: ص ۲۱۔
[6] الزہد: ص ۲۲۔
[7] الزہد: ص ۲۲۔