کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 327
ایک دفعہ فرمایا: ’’ایمان اور وجد کی لذت کو تین باتوں میں تلاش کرو: (۱)نماز میں (۲)ذکر میں (۳) اور قرائت قرآن میں، پس اگر تو تمہیں ان تینوں باتوں میں ایمان کی لذت وحلاوت ملتی ہے تو چلتا رہ وگرنہ جان لے کہ تیرے دل کا دروازہ بند ہے اس کو کھولنے کی کوئی تدبیر کر۔‘‘[1] سب سے افضل ذکر قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر عمل ہے، چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’جو یہ جاننا چاہے کہ وہ (حق یا گمراہی میں سے) کس بات پر ہے تو وہ اپنے عمل کو قرآن پر پیش کرے تو اسے پتا چل جائے گا کہ اس کا پلڑا اوپر ہے یا نیچے۔‘‘[2] ایک دفعہ فرمایا: ’’اللہ اس بندے پر رحم کرے جس نے خود کو کتاب اللہ پر پیش کیا۔ پس اگر تو اس کا عمل قرآن کے موافق نکلا تو اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور اللہ سے مزید عمل کی توفیق مانگی اور اگر اس کا عمل قرآن کے مخالف نکلا تو توبہ کی اور جلد ہی نافرمانی سے لوٹ آیا۔‘‘[3] آپ فرمایا کرتے تھے: ’’اے لوگو! یہ قرآن مومنوں کے لیے شفا اور متقیوں کے لیے امام اور رہنما ہے۔ پس جس نے قرآن سے ہدایت لی وہ ہدایت پر ہے، اور جس نے قرآن سے منہ موڑا وہ بدبخت اور آزمائشوں کی آماج گاہ ہے۔‘‘[4] آپ فرماتے ہیں: ’’قرآن کی قراء ت وتلاوت کرنے والے تین قسم کے لوگ ہیں، کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے قرآن کو لوگوں سے مانگنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اس کے حروف کو تو سدھار کر پڑھتے ہیں پر انہوں نے اس کی حدود کو برباد کر دیا اور اس کے ذریعے حکام سے بخششیں لیں اور لوگوں پر بڑائی جتلائی۔ ایسی قسم کے حاملین قرآن بے شمار ہیں اللہ ان کی جمعیت زیادہ نہ کرے اور ان کے غیر کو اپنی رحمت سے دور نہ کرے۔ اور تیسری قسم لوگ وہ ہیں جنہوں نے قرآن کی قراء ت کی، اس کی آیات میں غور و تدبر کیا اور اس کے ذریعے اپنے دلوں کا دوا دارو کیا۔‘‘[5] حسن بصری رحمہ اللہ قیام اللیل کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’اگر تو نہ تورات کا قیام کرتا ہو اور نہ دن کا روزہ رکھتا ہو تو جان لے کہ تو محروم ہے اور گناہوں اور خطاؤں نے تجھے اپنا قیدی بنا رکھا ہے۔‘‘[6] ایک آدمی نے آپ سے یہ کہا: ’’ابو سعید! مجھ پر قیام لیل بے حد بوجھل ہے مجھ میں اس کی سکت نہیں؟‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’اے بھائی! توبہ کر، استغفار کر کہ یہ تو بری علامت ہے۔‘‘[7]اور فرمایا: ’’آدمی کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے جس کی نحوست سے وہ قیام اللیل سے محروم کر دیا جاتا ہے۔‘‘[8]
[1] الزہد: ص ۷۹۔ [2] الزہد: ص ۱۴۲۔ [3] ایضًا [4] الزہد: ص ۱۴۷۔ [5] الزہد: ص ۱۴۸۔ [6] الزہد: ص ۱۴۶۔ [7] الزہد: ص ۱۴۶۔ [8] الزہد: ص ۱۴۶۔