کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 326
{اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُتَشَابِہًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ} (الزمر: ۲۳)
’’اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی، ایسی کتاب جو آپس میں ملتی جلتی ہے، (ایسی آیات )جو باربار دھرائی جانے والی ہیں، اس سے ان لوگوں کی کھالوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’بے شک ان دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے۔‘‘ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! دلوں کے اس زنگ کو کیونکر دور کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تلاوت قرآن اور ذکر الٰہی کی کثرت (کے ساتھ)۔‘‘ [1]
حسن بصری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’اے لوگو! میں تم لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں اور میں تم میں سے سب سے بہتر اور سب سے زیادہ نیک نہیں۔ بے شک میں اپنی جان پر بہت زیادہ زیادتی کرنے والا ہوں، میں اپنے نفس کو سدھارنے والا نہیں، نہ اس کو فرائض کی ادائیگی اور رب کی اطاعت پر ابھارتا ہوں اگر بات یہ ہوتی کہ ایک بھائی اپنے بھائی کو تب ہی نصیحت کر سکتا ہے جب پہلے اپنے نفس کو سدھارے تو دنیا میں واعظ معدوم ہو جاتے اور یاد دلانے والے کم پڑ جاتے اور دعوت الی اللہ دینے والے ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتے اور نہ کوئی رب کی اطاعت کی ترغیب دیتا نظر آتا اور نہ کوئی اس کی معصیت سے روکنے والا ہی ملتا، لیکن جب اہل بصیرت جمع ہوتے ہیں اور اہل ایمان ایک دوسرے کو یاد دلاتے ہیں تو اس سے دل زندہ ہوتے ہیں، غفلت سے ہوشیاری نصیب ہوتی ہے اور بھول چوک سے امن ملتا ہے۔ اللہ تمہیں معاف کرے، اے لوگو! مجلس ذکر کو لازم پکڑو بسا اوقات ایک معمولی کلمہ بھی جو سننے کو مل جائے نفع دے جاتا ہے اور اللہ سے ڈرنے کا حق ادا کرو اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔‘‘[2]
ایک وعظ میں فرماتے ہیں: ’’پاک ہے وہ ذات جس نے عارفین کو اپنی طرف یکسو ہو جانے کی حلاوت اور اپنی خدمت کی لذت نصیب کی، جس نے ان کی ہمتوں کو ذکر الٰہی کے ساتھ باندھ کے رکھ دیا اور ان کے دلوں کو ہر شے سے بیگانہ کر دیا۔ پس ان عارفین کے نزدیک کوئی شے اس کی مناجات سے زیادہ لذیذ نہیں اور اس کی خدمت سے بڑھ کر ان کی آنکھیں اور شے سے ٹھنڈی نہیں ہوتیں اور نہ ان کی زبانوں پر رب تعالیٰ کی اس ذات کے ذکر سے زیادہ سہل کوئی چیز ہے جو ہر اس عیب سے بلند و برتر ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔‘‘[3]
[1] شعب الایمان للبیہقی، رقم: ۱۴۲۔
[2] الزہد للحسن البصری: ص۷۹۔
[3] الزہد: ص۷۹۔