کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 325
الف: دلوں کی سختی اور موت اور ان کا احیاء کسی آدمی نے حسن بصری رحمہ اللہ سے شکایت کی کہ میرا دل بڑا سخت ہے، تو آپ نے اس سے فرمایا: ’’ذکر کے ساتھ اپنے دل کے قریب ہو۔‘‘[1]پھر فرمایا: ’’دل مرتے بھی ہیں اور زندہ بھی ہوتے ہیں۔ پس جب مر جائیں تو انہیں فرائض پر جا اتارواور جب دیکھو کہ فرائض سے زندہ ہوگئے ہیں تو انہیں فرائض کے بعد نوافل کا عادی بناؤ۔‘‘[2] رب تعالیٰ نے سخت دل کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: {ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً} (البقرۃ: ۷۴) ’’پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے گویا کہ وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی سخت (ہیں)۔‘‘ پھر آگے رب تعالیٰ دلوں کے زیادہ سخت ہونے کی وجہ بھی بیان فرماتے ہیں، ارشاد ہے: {وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآئُ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ} (البقرۃ: ۷۴) ’’پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں، یا سختی میں (ان سے بھی) بڑھ کر ہیں اور بے شک پتھروں میں سے کچھ یقینا وہ ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بے شک ان سے کچھ یقینا وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں۔ ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کرو کیونکہ ذکر خدا کے بغیر زیادہ کلام دل کے لیے سختی (کا باعث) ہے اور بے شک اللہ سے سب سے زیادہ دور بندہ وہ ہے جو سخت دل (والا) ہو۔‘‘[3] دل کی سختی کے اسباب بے شمار ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں: اللہ کے ذکر بغیر زیادہ کلام کرنا، اللہ کے ساتھ عہد کر کے توڑ ڈالنا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: { فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِیَۃً } (المآئدۃ: ۱۳) ’’تو ان لوگوں کے عہد توڑنے کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا۔‘‘ اسی طرح زیادہ ہنسنا، زیادہ کھانا، بالخصوص حرام کھانا، گناہوں کی کثرت وغیرہ[4] حسن بصری رحمہ اللہ نے اپنے کلام اور مواعظ وارشاد میں ان سب اسباب کو ذکر کیا ہے۔ اسی طرح دلوں کی سختی دور کرنے والے اسباب بھی متعدد ہیں۔ ذیل میں ان میں سے چند اسباب کو ذکر کیا جاتا ہے۔ قلب وزبان کو ذکر الٰہی سے تر رکھنا:…… ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[1] الزہد، للحسن البصری: ص ۱۲۳۔ [2] الزہد، للحسن البصری: ص ۱۲۴۔ [3] سنن الترمذی، رقم: ۲۴۱۱۔ حدیث حسن غریب۔ [4] مجموعۃ رسائل الحافظ ابن رجب الحنبلی: ۱/ ۲۶۱۔ ۲۶۲۔