کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 323
مطروَرَّاق کہتے ہیں: ’’حسن یوں آتے جیسے عالم آخرت سے آئے ہوں اور ہر بات یوں بتلاتے جیسے آنکھوں سے دیکھ آئے ہوں۔‘‘[1]
عوف کہتے ہیں: ’’میں نے حسن سے زیادہ جنت کے طریق کو جاننے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘[2]
آپ کو ایمان کی حلاوت اور اس کی لذت نصیب تھی۔ جذبے اور وجدان سے بولتے تھے۔ خالی اور بے مغز نہیں۔ اسی لیے بصرہ میں سب سے بڑا علمی حلقہ آپ کا تھا اور لوگ آپ کی طرف یوں کھنچے چلے آتے تھے، جیسے لوہا مقناطیس کی طرف کھنچتا ہے۔ اہل دل اور مخلصین کا ہر زمانہ میں یہی حال ہوتا ہے۔ آپ کے وعظ کی سب سے بڑی خوبی علماء نے یہ بیان کی ہے کہ آپ کا کلام کلام نبوی کے مشابہ ہوتا تھا۔ چنانچہ امام غزالی ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’حسن بصری کا کلام سب سے زیادہ پیغمبروں کے کلام کے مشابہ ہوتا تھا۔ اور آپ کی سیرت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کے سب سے زیادہ مشابہ ہوتی تھی۔ آپ کے بارے میں اس بات پر سب علماء کا اتفاق ہے۔‘‘[3]
آپ کی انہی بے پناہ خدا داد خوبیوں، فضائل وکمالات اور شمائل و صفات کا ہی نتیجہ تھا کہ لوگوں کے دل آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ رب تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ مقبولیت سے نوازا اور آپ کی پرکشش شخصیت نہایت قوی اور محبوب تھی۔ لوگ آپ کے سحر میں گرفتار رہتے۔ ان کی شیفتگی ووارفتگی کا عالم یہ تھا کہ سب کے کندھے آپ کے آگے جھکے رہتے حتی کہ ثابت بن قرہ حکیم حرانی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’بے شک حسن بصری امت محمدیہ کے وہ مایہ ناز سپوت ہیں جن پر روز آخرت میں دوسری امتوں کے لوگوں پر فخر کیا جائے گا۔‘‘[4]
حسن بصری کے دلوں کو اس قدر متاثر کرنے اور لوگوں کے دلوں میں اتر جانے کا اہم ترین سبب یہ تھا کہ آپ نے لوگوں کے نازک احساسات کو جھنجھوڑا، ان کی دکھتی رگوں پر ضرب لگائی، ان کی صحیح نبض شناسی کی، ان کے جذبات واحساس کی گہرائیوں میں اترے، معاشرے کی جڑوں تک کا جائزہ لیا، لوگوں پر ان کے عیوب وامراض کو طشت ازبام کیا اور کسی مہربان اور رفیق حکیم کی طرح انہیں ان کی برائیوں پر مطلع کیا، پھر معاشرے کے امراض کی تشخیص کر کے لوگوں کو یوں ہی نہ چھوڑ دیا بلکہ کسی ماہر اور تجربہ کار طبیب اور شفیق وہمدرد ناصح کی طرح ان امراض کا علاج تجویز کیا۔ آپ کے زمانہ میں واعظین ومبلغین کا ایک انبار تھا مگر عجیب بات ہے کہ جو تاثیر آپ کے وعظ ونصیحت میں تھی وہ کسی کے وعظ میں نہ تھی۔ کیونکہ آپ لوگوں کے دل چھو لیتے تھے اور زندگی کی حقیقتوں میں اتر کر بات کرتے، معاشرے پر گرد کی طرح چھائے ماحول پر کڑی تنقید کرتے اور اس کا
[1] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۵۷۳۔
[2] ایضًا: ۴/ ۵۷۵۔
[3] رجال الفکر والدعوۃ: ۱/ ۶۸۔
[4] رجال الفکر والدعوۃ: ۱/ ۶۸۔