کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 322
اور کس نکتہ سے ایک معاشرہ ترقی کی ڈگر سے ہٹتا ہے۔ آپ کی معلومات بے حد وسیع تھیں، زندگی کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ معاشرے کے مختلف طبقات اور ان کے اخلاق وعادات پر گہری نظر تھی۔ آپ کسی ماہر اور تجربہ کار طبیب کی طرح معاشرتی بیماریوں اور ان کے علاج دونوں سے واقف تھے۔[1]
بے شمار خوبیوں کے ساتھ ساتھ بے حد شیریں کلام، پر اثر گفتگو، حلاوت دھن اور فصاحت وبلاغت کے مالک تھے، بات کرتے جیسے موتی جھڑتے، آپ کے وعظ کا ہر ہر لفظ سننے والوں کے دلوں میں اترتا چلا جاتا۔ ابوعمرو بن علاء کہتے ہیں: ’’میں نے حسن بصری اور حجاج سے زیادہ فصیح کوئی نہیں دیکھا۔ اور حسن حجاج سے بھی زیادہ فصیح تھے۔‘‘[2] حسن بصری وسیع معلومات اور وفورِ علم میں رب کی ایک نشانی تھے۔ ربیع بن انس کہتے ہیں: ’’میں دس سال تک حسن بصری کے پاس آتا جاتا رہا اور میں نے ان سے ہر دن ایسی نئی بات سنی جو اس سے پہلے نہ سنی تھی۔‘‘ محمد بن سعد کہتے ہیں: ’’حسن بصری ایک جامع شخصیت کے مالک، عالم، بلند مرتبہ فقیہ، ثقہ اور مامون، عابد وزاہد، بے پناہ علم کے مالک، شیریں سخن، فصیح وبلیغ، خوش کلام، خوش الحان، خوش بیان حسین وجمیل اور خوش صورت وسیرت تھے۔ مکہ آئے تو لوگوں نے منبر پر بٹھلایا۔ آپ کے گرد ایک جم غفیر اکٹھا ہوگیا، سب کی زبان پر یہ کلمات تھے: ’’ہم نے ایسا شخص نہیں دیکھا۔‘‘ ابوحیان توحیدی ثابت بن قرہ سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’’حسن بصری علم و تقویٰ، زہد و ورع، عفت وپاکدامنی اور فقہ ومعرفت کے چمکتے ستارے تھے۔‘‘ آپ کی مجلس مختلف ماہرین علوم سے پر ہوتی تھی۔ کوئی حدیث کا ماہر تھا تو کوئی تاویل یعنی تفسیر کا، کوئی حلال وحرام کا درس دے رہا ہے تو کوئی فتوے بیان کر رہا ہے۔ کسی سے احکام قضاء اور حکمتیں سیکھی جا رہی ہیں تو کسی سے وعظ ونصیحت سنی جا رہی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ آپ ان سب میں کسی روشن چراغ کی طرح چمک رہے ہوتے تھے۔ شاہانِ وقت اور امراء وحکام کے سامنے نہایت دوٹوک انداز اور ناقابل تردید الفاظ کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب میں آپ کے واقعات ناقابل فراموش ہیں۔[3] اور ان سب پر مستزاد یہ کہ آپ نہایت پختہ عزائم اور ولولہ انگیز روح کے مالک تھے اور دراصل آپ کی اسی صفت کا لوگوں کے دلوں پر سب سے زیادہ اثر تھا اور لوگوں کے دلوں میں آپ کی عقیدت ومحبت کے پس پردہ آپ کی یہی صفت تھی جس نے جیوں کو مسحور اور دلوں کو آپ کا اسیر و گرویدہ بنا رکھا تھا۔ آپ کبار مخلصین میں تھے۔ جو کہتے دل سے کہتے اور وہ بات سیدھی مخاطب کے دل میں جا اترتی تھی۔ جب آپ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا آخرت کا ذکر کرتے تو دلوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے، سننے والوں کے دل پارہ پارہ ہو جاتے اور نگاہیں ساون بھادوں کی طرح برسنے لگتیں۔[4]
[1] رجال الکفر والدعوۃ: ۱/ ۶۷۔
[2] نظرات فی التصوف الاسلامی: ص ۲۲۱۔ از دکتور محمد القھوجی۔
[3] رجال الفکر والدعوۃ: ۱/ ۶۸۔
[4] رجال الفکر: ۱/ ۶۸۔