کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 321
خلافت فاروقی میں ۲۱ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کی والدہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ کسی کام سے باہر گئیں۔ حسن بصری اس وقت دودھ پیتے بچے تھے۔ والدہ کو تاخیر ہوئی تو بھوک کے مارے رونے لگے۔ جس پر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں گود لے کر دودھ پلا دیا۔ یوں حسن بصری ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بیٹے بن گئے۔ اسی کی برکت تھی کہ حسن بصری بے حد فصیح وبلیغ اور بے پناہ علم کے مالک تھے۔ بدیہی بات ہے کہ حسن بصری رحمہ اللہ نے امہات المومنینرضی اللہ عنہن کے پاکیزہ گھروں میں پرورش پائی اور انہی پاکیزہ ہستیوں کے چشمہ علم وعمل سے سیراب ہوئے۔ اور ان مبارک ہستیوں کے اخلاق سے خود کو آراستہ کیا۔ جبکہ دوسری طرف مسجد نبوی میں بھی آمد ورفت تھی۔ جہاں ابھی تک کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے فیوض و برکات کے ساتھ رونق افروز تھے۔ حسن بصری رحمہ اللہ کو اجل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا موقع ملا۔ جن میں سیّدنا ابو موسیٰ اشعری، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم جیسی شخصیات کے نام گرامی اور اسم سامی آتے ہیں۔ آپ کے والدین بعد میں بصرہ منتقل ہوگئے۔ اسی نسبت سے بصری کہلانے لگے۔ بصرہ ہجرت کے وقت آپ کی عمر چودہ سال تھی۔ وہاں آپ نے جامع مسجد کو لازم پکڑ لیا اور مسجد کی چوکھٹ بن کر رہ گئے بالخصوص آپ نے حبرالامہ، ترجمان القرآن سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حلقہ درس کو لازم پکڑ لیا۔ پھر تھوڑی مدت بھی نہ گزری کہ آپ علم کا بحر ذخار بن گئے اور لوگ پروانوں کی طرح آپ پر ٹوٹنے لگے۔ ہر طرف آپ کے علوم کا چرچا ہونے لگا۔ دور نزدیک سے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ آپ کے قول وفعل میں کمال مطابقت تھی، جو کرتے نہ تھے وہ کہتے بھی نہ تھے۔ آپ کا ظاہر و باطن مثل آئینہ عیاں اور یکساں تھا۔ اگر کسی نیکی کو کہتے تو سب سے بڑھ کر اس پر عمل خود کرتے۔ اگر کسی برائی سے روکتے تو خود بھی اس سے ہزاروں میل دور رہتے، بے نیاز دل کے مالک تھے، کسی کے مال پر نظر نہ تھی، بے حد زاہد ودرویش، البتہ لوگ آپ کے علم وعمل کے محتاج تھے۔[1]
۱۔ لوگوں کے دل متاثر ہونے کے اسباب
رب تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ خوبیوں سے نوازا جن کی بدولت آپ نے لوگوں کے دل جیت لیے اور معاشرے میں دینی اقدار اور اہل دین کے مقام و مرتبہ کو بلند کیا۔ بے پناہ علم کے مالک تھے۔ بالخصوص حدیث وتفسیر میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب دین کی نشر واشاعت اور دعوت واصلاح کا ذمہ وہی اٹھا سکتا تھا جو ان دونوں علوم میں زبردست فوقیت وبرتری رکھتا تھا۔ متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ متعدد اکابر کے معاصر تھے۔ آپ کے مواعظ اور حالات زندگی سے عیاں ہوتا ہے کہ آپ نے اس دور کا گہرا مطالعہ کیا تھا، اس کی روح تک جا پہنچے اور جان گئے کہ ایک اسلامی معاشرہ کن خطوط پر چل کر ترقی کرتا ہے۔
[1] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۵۶۳، ۵۸۸۔