کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 320
دونوں امور تو بے آرامی، بے خوابی، جفاکشی اور محنت کے طالب ہیں۔ بلاشبہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنا آسان نہیں تھا۔[1]
۶۔ کس کی حدیث حجت اور کس کی غیر حجت، اس کے لیے رواۃ کا حال جاننا ضروری ہے[2]
حدیث نبوی کی بابت یہ بھی ایک بڑی اہم خدمت تھی جو حضرات تابعین نے جان جوکھوں میں ڈال کر ادا کی کہ انہوں نے رواۃ کے احوال کو پوری جانکاہی کے ساتھ جانچا اور پرکھا اور یہ واضح کیا کہ کس راوی کی حدیث حجت ہے اور کس کی غیر حجت ہے۔ ذیل میں اس بابت حضرات تابعین کے چند اقوال سپرد قلم کیے جاتے ہیں:
الف:…… محمد بن سیرین کہتے ہیں: ’’میں نے دیکھا کہ اہل کوفہ پانچ لوگوں کو مقدم رکھتے ہیں ایک وہ جو حارث اعور سے حدیث کی سند شروع کرے، دوسرے وہ جو عبیدہ سے، تیسرے وہ جو علقمہ سے، پھر وہ جو مسروق سے اور پانچویں وہ جو شریح سے حدیث کو شروع کرے۔‘‘[3]
ب:…… قتادہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ’’جب چار لوگوں کی روایات میرے پاس جمع ہو جائیں تو میں دوسروں کی طرف مطلق التفات نہیں کرتا اور نہ مجھے ان کے مخالفین کی پروا ہوتی ہے۔ وہ چار یہ ہیں: ’’حسن، سعید بن مسیب، ابراہیم اور عطاء۔‘‘ یہ لوگ ائمہ امصار ہیں۔‘‘[4]
حضرات تابعین کی حدیث نبوی میں کی جانے والی یہ اہم ترین خدمات کا ایک مختصر تذکرہ ہے۔ اس کی مزید تفصیل ’’السنۃ قبل التدوین[5]‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے جو دکتور محمد عجاج خطیب کی تصنیف لطیف ہے۔ اور ’’التابعون وجھودھم فی خدمت الحدیث النبوی‘‘ کا مطالعہ بھی اس بابت بے حد مفید ہے۔
۶… تابعین کا طرز تزکیہ وسلوک
اس کی مثال میں حسن بصری کے مدرسہ تزکیہ وسلوک کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
حسن بصری خلافت امویہ اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں:
حسن بصری کو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے معاصرین میں شمار کیا جاتا ہے۔ خلافت امویہ کی دینی اور معاشرتی زندگی پر آپ کے گہرے اثرات تھے۔ آپ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، ابوسعید کنیت، حسن بن سعید نام اور بصری نسبت ہے۔ کبار تابعین میں سے تھے۔ اہل بصرہ کے امام اور اپنے وقت کے حبر الامہ تھے۔ والدہ کا نام ’’خیرہ‘‘ تھا۔ جو ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ کنیز تھیں۔
[1] التابعون وجھودھم: ص ۶۴۔
[2] التابعون وجھودھم۔
[3] سیر اعلام النبلاء: ص ۴/۹۱۔
[4] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۸۳۔
[5] السنۃ قبل التدوین، ص: ۱۴۴۔ ۱۹۹۔