کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 32
چنانچہ آپ کی شادی خلیفہ راشد امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نواسی ام عاصم بنت عاصم بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔
ایک قول ان کے نام کے لیلیٰ[1] ہونے کا بھی ہے۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ جب تک خود آل خطاب کو آپ کے جملہ احوال، حسن سیرت، اور اخلاق وعادات کاپوری طرح علم نہ ہوگیا تھا، یہ رشتہ طے نہ ہواتھا۔ عنفوان شباب سے ہی دینداری کے آثار نمایاں تھے۔ تحصیل علم کا شوق اور سنت نبوی اور احادیث کا اہتمام ہر وقت دامن گیر رہتا تھا۔ اسی شوق نے آپ کو سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ مجالس علمیہ کا غلام بنا کر رکھ دیا تھا۔آپ نے سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حدیث سنی۔حدیث نبوی اور علوم دینیہ کا یہ اہتمام مصر کی ولایت سنبھالنے کے بعدبھی جاری رہا۔ چنانچہ آپ نے شام کے محدث اعظم کثیربن مرہ کو یہ لکھ بھیجا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بھی احادیث سنی ہیں وہ انہیں لکھ بھیجیں کیونکہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر وقت دربار رسالت میں حاضر باش رہتے تھے۔[2]
جناب عبدالعزیز بڑے بلند ہمت انسان تھے، بلند پایہ امور کے حصول کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ آپ کا یہ حال والی مصر بننے سے پہلے اور بعد میں ایک جیسا ہی تھا۔ چنانچہ جب عین شباب میں آپ نے سرزمین مصر پر قدم رکھا تو مصرکی ولایت حاصل کرنے کا جذبہ دل میں پیدا ہوااور بالآخر مصر کی ولایت حاصل کرکے رہے۔[3]
جود و سخا اور عطا کی طرف مائل ہوئے تو بنی امیہ کے سب سے بڑے سخی کہلائے۔[4] آپ کے گھرکے باہر بلا ناغہ ایک ہزار کھانے کے پیالے رکھے جاتے تھے۔
جبکہ سوپیالوں کو گاڑیوں پر لاد کر قبائل تک پہنچایا جاتا تھا۔[5] آپ کی سخاوت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ یہ کہا کرتے تھے کہ ’’اگرکوئی آدمی مجھے اپنے اوپر اس بات کی قدرت دے دے کہ میں اپنی نیکی بھی اس کے پاس رکھ سکوں تو اس کا مجھ پر یہ احسان میرے اس پر احسان سے کہیں بڑھ کر ہے۔‘‘[6]
مؤرخین نے آپ کے جود و کرم اور سخاوت کے بے حدتعریف کی ہے۔ آپ کی یہ سخاوت اس یقین کے ساتھ ملی ہوئی تھی کہ آدمی جو بھی خرچ کرتا ہے۔ رب تعالیٰ اس کا بدل ضرور دیتا ہے۔ چنانچہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کہا
[1] عبدالعزیز بن مروان وسیرتہ واثرہ فی احداث العصر الاموی،ص: ۵۸۔
[2] سیر اعلام النبلاء: ۴/۴۷۔
[3] الولاۃ وکتاب القضاء،ص:۵۴ از کندی۔
[4] معجز الاسلام،ص: ۵۵ از خالد محمد خالد۔
[5] الخطط: ۱/۲۱ از مقریزی۔
[6] عبدالعزیز بن مروان،ص: ۵۵۔