کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 319
مروی ہے، وہ کہتے ہیں، ’’میں نے سنا کہ یہ قصہ گو لوگ حدیث کو صحیح یاد نہیں رکھتے چنانچہ میں ثابت پر احادیث کو بدل بدل کر پیش کرتا کہ کبھی انس کو ابن ابی لیلی بنا دیتا اور کبھی اس کے برعکس کرتا اور احادیث کو ثابت پر خلط ملط کر دیتا۔ مگر ثابت وہی احادیث میرے سامنے سند اور متن کو صحیح کر کے سنا دیتے۔[1] ٭ جو حدیث کو چھوڑ کر قرآن میں لگ جائے وہ بدعتی ہے، یہ بھی جرح وتعدیل کا ایک کڑا معیار تھا۔ ابو قلابہ بیان کرتے ہیں کہ ’’جب تو کسی کو حدیث سنائے اور وہ کہے کہ چھوڑو جی حدیث کو، کتاب اللہ لاؤ، تو جان لو کہ وہ بدعتی اور گمراہ ہے۔‘‘[2] ٭ حدیث میں لگنے سے پہلے قرآن ضرور یاد کریں، حفص بن غیاث سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’میں نے اعمش کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے حدیث بیان کیجئے‘‘ تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ’’کیا تم نے قرآن حفظ کر رکھا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ نہیں، تو فرمایا: ’’جاؤ جا کر پہلے قرآن یاد کرو، پھر آنا میں تمہیں حدیث بیان کروں گا۔‘‘ حفص کہتے ہیں: میں اٹھ کر چلا گیا اور قرآن حفظ کرنے میں لگ گیا۔ جب قرآن حفظ کر لیا تو پھر حاضر ہوا۔ اعمش نے پہلے میرے حفظ قرآن کا امتحان لیا۔ میں نے ٹھیک ٹھیک قرآن سنا دیا۔ تب انہوں نے مجھے حدیث سنانا شروع کی۔ ۵۔ افتاء وقضاء حضرات تابعین کرام رحمہم اللہ نے اس اہم شعبہ کو بھی سنبھالا۔ چنانچہ لوگوں کے مسائل میں انہیں فتوے دیئے اور ان کے خصومات میں فصل بھی کیا۔ علقمہ بن قیس نخعی ہی کو دیکھ لیجئے ابراہیم اور شعبی جیسے ائمہ نے ان سے تفقہ حاصل کیا۔ علقمہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بعد لوگوں کی امامت اور فتویٰ کے منصب کو سنبھالا، علقمہ اپنی سیرت و کردار اور اخلاق وعادات میں سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بہت زیادہ مشابہ تھے۔ آپ کے تلامذہ آپ سے علم سیکھ کر فقیہ بن جاتے حالانکہ اس وقت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کثرت کے ساتھ موجود تھے۔[3] ابو زناد سے روایت ہے کہ ’’مدینہ میں جن سات فقہاء سے لوگ اپنے مسائل پوچھا کرتے تھے اور انہی کے اقوال قول فیصل ہوا کرتے تھے، وہ یہ ہیں: سعید بن مسیب، ابوبکر بن عبدالرحمن، عروہ، قاسم، عبیداللہ بن عبداللہ خارجہ بن زید اور سلیمان بن یسار۔‘‘[4]بے شک لوگوں کو ان کے مسائل میں فتویٰ دینا، اور عہدۂ قضا کو سنبھالنا ایسے امور نہ تھے جو تن آسانی، راحت جاں اور آرام پرستی کے ساتھ سرانجام دیئے جا سکتے، بلکہ یہ
[1] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۲۲۲۔ [2] سر اعلام النبلاء: ۶/ ۷۴۲۔ [3] المحدث الفاصل، باب اوصاف الطالب وآدابہ: ص ۲۰۳۔ [4] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۴۳۸۔