کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 318
دنوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی کثرت کے ساتھ موجود تھے۔‘‘[1]اور زہری کا بیان ہے کہ ’’سعید بن جبیر روزانہ دو مرتبہ فجر کے بعد اور عصر کے بعد وعظ فرمایا کرتے تھے۔‘‘[2]
۳۔ حدیث کو اسی طریقہ پر ادا کرنے کی حرص
یعنی روایت باللفظ کا اہتمام، اور اگر روایت باللفظ میسر نہ ہو سکی تو روایت بالمعنی کا التزام کرنا، البتہ اس باب میں حضرات تابعین عظام معروف شرائط و ضوابط کی پوری پوری رعایت رکھتے تھے۔[3] چنانچہ ابن عون سے روایت ہے کہ ابراہیم، شعبی اور حسن حدیث کو بالمعنی روایت کرتے تھے۔ جبکہ قاسم، ابن سیرین اور رجاء حدیث کو باللفظ روایت کرتے تھے۔‘‘[4] لیث بن ابی سلیم کا قول ہے کہ ’’طاؤس حدیث کو حرف بہ حرف بیان کرتے تھے۔‘‘[5] جریر بن حازم کہتے ہیں: ’’میں نے حسن کو حدیث بیان کرتے سنا کہ اصل ایک ہوتی جبکہ کلام خود ساختہ ہوتا تھا۔‘‘[6] (یعنی حسن حدیث کو بالمعنی روایت کرتے تھے۔)
۴۔ رواۃ کے احوال کی معرفت کے لیے جرح وتعدیل کے علمی معیار مقرر کرنا
٭ راویوں کی روایات کا ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ وموازنہ کرنا۔ چنانچہ ابن شہاب زہری کہتے ہیں، ’’جب ایک حدیث مجھے عمرہ بیان کرے پھر عروہ بیان کرے تو میرے نزدیک عمرہ کی حدیث عروہ کی حدیث کی تصدیق کرتی ہے۔ پھر جب میں نے دونوں کی حدیث میں غور کیا تو مجھے عروہ علم حدیث کا بحربیکراں نظر آئے۔‘‘[7]
٭ ایک ہی راوی کی بیان کردہ حدیث کا ایک مدت بعد اسی کی بیان کردہ حدیث سے موازنہ ومقارنہ کرنا، جیسے ہشام بن عبدالملک نے زہری کے حافظہ کا امتحان لینا چاہا تو انہیں بلا کر کہا کہ میرے بچوں کے لیے بعض احادیث املاء کرا دیجئے، چنانچہ زہری نے تقریباً چار سو احادیث املا کروا دیں، پھر ہشام نے تقریباً ایک ماہ بعد زہری کو دوبارہ بلوا کر کہا کہ وہ کتاب کسی وجہ سے ضائع ہوگئی۔ آپ ذرا مہربانی کر کے وہی احادیث دوبارہ املاء کروا دیجئے۔ چنانچہ زہری نے وہی احادیث دوبارہ املاء کروا دیں۔ جب ہشام نے دونوں صحیفوں کا موازنہ کر کے دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دونوں میں ایک لفظ کا بھی فرق نہ تھا۔ [8]
٭ اسی طرح اسناد اور متون کو بدل کر بھی راوی کے حفظ اور اتقان کا اندازہ کیا کرتے تھے۔ حماد بن سلمہ سے
[1] تاریخ الاسلام: ص۱۲۶۔
[2] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۳۳۶۔
[3] التابعون وجھودھم: ص ۵۸۔
[4] سیر اعلام البنلاء: ۴/ ۵۵۹۔
[5] سیر اعلام البنلاء: ۵/ ۴۶۵۔
[6] الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع: ۲/ ۲۱۔
[7] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۴۳۶۔
[8] السنۃ ومکانتھا فی التشریع: ص ۲۰۹۔