کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 316
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قرآن کو جمع کیا تھا… اور یہ ان دونوں بزرگ ہستیوں رضی اللہ عنہما کا امت محمدیہ پر از حد احسان تھا… پھر جناب عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے آکر امت مسلمہ کو ایک صحیفہ، ایک حرف اور ایک لہجہ، لہجۂ قریش پر جمع کیا تو ہم یہ بات کہنے میں بالکل حق بجانب ہیں… اور یہ ہمارا گمان ہے اور ہم اللہ کے سوا کسی کی پاکیزگی بیان نہیں کرتے… کہ رب تعالیٰ نے یہ عظیم سعادت اور جلیل القدر عزت جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے لیے مقدر فرما رکھی تھی کہ آپ نے اپنے دور خلافت میں احادیث کی جمع و تدوین اور تنقیہ و تنقیح کا سرکاری فرمان جاری کیا اور دین اسلام کے دوسرے بڑے اور اہم ترین تشریعی ماخذ ’’سنت واحادیث نبویہ‘‘ کی حفاظت وحمایت کا سرکاری سرپرستی میں اہتمام وانتظام کیا۔ بے شک یہ بڑے بندوں، عظیم علماء اور کبار مصلحین کا وہ نصیب ہے جو انہیں رب ذوالجلال والاکرام کی توفیق سے ہی ملتا ہے۔ اور یہ سعادت تب ہی نصیب میں آتی ہے جب اپنے دل رب کے لیے خالص کر لیے جائیں۔ پھر رب تعالیٰ انہیں حق کی توفیق سے نوازتا ہے، انہیں خیر کی راہ دکھلاتا ہے، ان کی محنتوں کو سیدھی راہ پر ڈالتا ہے اور ان کے امور کو رشد وہدایت بہم مہیا کرتا ہے۔[1] لیبیا کے مشہور شاعر احمد رفیق مہدوی نے کیا خوب کہا ہے: ’’رب تعالیٰ کو جب کسی بندے کا باطن پسند آجاتا ہے تو اس پر رب فتاح کی عنایات کے آثار صاف نظر آتے ہیں اور جب کسی مصلح کی نیت اللہ کے لیے صاف ہو جاتی ہے تو رب کے بندے اپنی روحوں سمیت اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔‘‘[2] بلاشبہ ’’رسمی تدوین‘‘ کو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور خلافت کا ایک عظیم کارنامہ اور بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔[3] سنت نبویہ کی خدمت میں تابعین کا کردار حضرات تابعین عظام نے حدیث نبوی کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حاصل کیا تھا ان لوگوں نے سند حدیث کو نہایت دقت، احتیاط اور اتقان کے ساتھ ضبط کیا۔ حدیث نبوی ان حضرات کی گردنوں پر ایک امانت تھی اور اس کو اگلی نسلوں تک پہنچانا ان کی اہم ترین ذمہ داری تھی بالخصوص اس وقت یہ ذمہ داری اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گئی جب ان کے دور میں ایک طرف سیاسی وکلامی اختلافات نے سر اٹھا لیا تھا تو دوسری طرف زندیقوں کی یورشیں دم نہ لینے دے رہی تھیں اور باوجودیکہ دین و دولت دونوں زندقہ سے بیزار تھے۔ زندیقیت اسلام پر چڑھی چلی آرہی تھی۔ جبکہ تیسری طرف کئی تعصبات نے جنم لے لیا تھا جن میں قومی، لسانی،
[1] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار الشیخ: ص۸۳۔ [2] الثمار الزکیۃ للحرکۃ السنوسیۃ: ص ۱۹۸۔ [3] عمر بن عبدالعزیز، ص: ۸۳۔