کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 315
وہ احادیث لکھ بھیجو جو آپ کے نزدیک ثابت ہیں۔‘‘ اور امام احمد رحمہ اللہ ’’کتاب العلل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابن حزم کو لکھا کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور عمر رضی اللہ عنہ کی جو حدیث آپ کے نزدیک ثابت ہو وہ مجھے لکھ بھیجو۔‘‘[1] بلاشبہ تدوین حدیث کے منہج کی پختہ، ثابت، صحیح، معتدل اور مستقیم بنیادوں پر تاسیس سے متعلق یہ نقطہ عظیم اہمیت کا حامل ہے۔[2] ۴۔ تدوین حدیث سے متعلق آپ نے چوتھا نہج یہ اختیار کیا کہ حدیث کی صحت کی خوب تحقیق کی۔ کیونکہ خود آپ کا شمار کبار علماء میں ہوتا تھا۔ اور آپ کا علمی مرتبہ ان علماء سے کسی طرح کم نہ تھا جن کو آپ نے تدوین حدیث کی اہم ترین ذمہ داری سپرد کی تھی۔ لہٰذا احادیث کو مزید محقق کرنے کے لیے آپ نے احادیث جمع کرنے والوں کے ساتھ علمی مناقشہ بھی کیا۔[3] چنانچہ ابو زناد عبداللہ بن ذکوان قرشی کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو دیکھا کہ انہوں نے فقہاء کو جمع کیا۔ ان لوگوں نے سنن کو جمع کر رکھا تھا۔ جب وہ لوگ کسی ایسی بات کو پیش کرتے جو معمول بہ نہ ہوتی تو فرماتے کہ یہ زائد ہے، اس پر عمل نہیں ہے۔‘‘[4] تدوین حدیث کے ثمرات ان ابتدائی مبارک محنتوں نے پھر اپنا پھل دیا جو امام زہری کے دفترِ احادیث کی صورت میں سامنے آیا۔ چنانچہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ان کے متعدد نسخے اور نقول تیار کروائیں اور خلافت اسلامیہ کے بلاد و امصار میں ایک ایک نسخہ بھیج دیا۔ یاد رہے کہ متعدد علماء نے اپنے مسموعات کو اپنی یاد داشتوں میں جمع کر رکھا تھا تاکہ بوقت ضرورت ان کی طرف مراجعت کر کے اپنے حافظے میں اور اتقان واستحکام پیدا کیا جا سکے۔ رہی وہ تدوین جو خلافت کے حکم سلطانی کے زیر سایہ پایہ تکمیل کو پہنچی پھر اس کے ثمرات خلافت اسلامیہ کی اقالیم تک پھیلے بلا شبہ وہ جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے فرمان عالی مقام سے وجود میں آئی تھی۔ اور یہ بات بھی اس تدوین کے پاکیزہ ثمرات میں سے ہے کہ احادیث کی جمع وتدوین کے لیے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جو اصول وقواعد اور احکام وضوابط متعین کیے اور حدیث کے رد وقبول کے لیے آپ نے جو کڑا معیار مقرر کیا تھا وہ بعد میں آنے والوں کے لیے جمع حدیث کی وسیع اور مکمل ترین بنیاد اور پہلی اینٹ ثابت ہوئے۔ یہ سب آپ کی دور رس فہم، گہری نگاہ، غزارتِ علمی اور بے پناہ بصیرت و فراست کا نتیجہ تھا۔ بے شک یہ سب خدا کا ہی فضل وکرم تھا پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور اگر سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے مشورے سے جناب
[1] نقلاً عن مقدمۃ المسند: ص ۲۰، ۲۳۔ [2] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ: ص ۸۲۔ [3] ایضًا [4] ایضًا