کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 314
کے ممتاز افراد کو صرف ان احادیث کے جمع کرنے کا حکم دیا جو بے حد اہم تھیں۔ چنانچہ آپ نے ابوبکر بن حزم کو عمرہ بنت عبدالرحمن کی احادیث جمع کرنے کو کہا کیونکہ عمرہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی احادیث کو سب سے زیادہ جاننے والی تھیں اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال مبارکہ کو سب سے زیادہ جاننے والی تھیں۔ دوسرے سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے احوال کا سب سے زیادہ علم تھا۔[1]اور مذکورہ عمرہ یہ عمرہ بنت عبدالرحمن بن سعد بن زرارہ انصاریہ کی تربیت کا شاہکار تھیں۔ عمرہ کے دادا حضرت سعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام صحابہ میں سے تھے۔ یہی سعد نقیب کبیر جناب اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ غرض ابن المدینی نے عمرہ کا خوب لمبا تذکرہ کیا ہے اور ان کے فضائل ومناقب پر بڑا پر شکوہ کلام کیا ہے۔ چنانچہ ابن المدینی کہتے ہیں: عمرہ کا شمار ان ثقہ علماء میں ہوتا ہے جن کے سینوں میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علوم ٹھاٹھیں مارتے تھے اور وہ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علوم میں قابل اعتبار تھے۔[2] زہری کہتے ہیں کہ میں عمرہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے انہیں علوم کا بحر ناپید کنارا پایا۔[3] عمرہ نے ۹۸یا ۱۰۶ ہجری میں وفات پائی۔[4] ایک روایت یہ بھی ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابوبکر بن حزم کو امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی احادیث جمع کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ آپ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت، عدالتی فیصلوں اور صدقات کی بابت سیاست فاروقی کو جمع کرنا چاہتے تھے تاکہ آپ وہی احکامات صدقات کی بابت اپنے عمال کو لکھ بھیجیں۔ اسی لیے آپ نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی اسی بات کا مطالبہ کیا تھا کہ وہ آپ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فیصلے اور سیاست صدقات کی تفصیل لکھ بھیجیں۔ یہ امر آپ کے اس منہج سے کھل کر سامنے آتا ہے جو آپ نے اپنے جد امجد سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی سیرت کی اقتدا میں اپنایا تھا۔[5] اسی طرح آپ نے آلِ عمرو بن حزم کو بھی لکھ بھیجا کہ وہ آپ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صدقات کے بارے میں ایک کتاب لکھیں۔ تاکہ آپ اس کی روشنی میں خلافت کو چلائیں امور رعایا کے اور کو سنبھالیں۔[6]
۳۔ تیسرے آپ نے احادیث مدون کرنے والے علماء کے ذمے یہ بات لگائی کہ وہ صحیح احادیث کو سقیم احادیث سے ممیز وممتاز کریں۔ اور ثابت احادیث کو خوب کاوش سے تلاش کریں جیسا کہ دارمی کی روایت میں آتا ہے کہ آپ نے ابن حزم سے یہ کہا کہ ’’مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور حضرت رضی اللہ عنہ کی
[1] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ: ص ۸۱۔
[2] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ : ص۸۱۔
[3] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۵۰۸۔
[4] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۵۰۸۔
[5] عمر بن عبدالعزیز ، از عبدالستار شیخ: ص ۸۱۔
[6] عمر بن عبدالعزیز ، از عبدالستار شیخ : ص ۸۱۔