کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 313
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سن رکھا ہے انہیں جمع کر دے۔[1]ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یہ حکم نامہ جاری کیا: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو دیکھو، اس کو جمع کرو اور یاد کرو کیونکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ علم مٹ جائے گا اور علماء اٹھ جائیں گے۔‘‘[2] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لغت عربیہ کا بھی بے حد اہتمام کیا۔ چنانچہ آپ نے مفتوحہ علاقوں کے باشندوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ عربی زبان سیکھیں اور اس میں مہارت پیدا کریں۔ اس غرض کے لیے آپ انہیں انعامات سے بھی نوازتے۔ اسی طرح جو عربی زبان صحیح نہیں بولتا تھا۔ اس کو سزا بھی دیتے اور اس کے وظیفے میں کمی کر دیتے کیونکہ آپ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ کتاب سنت کو سمجھنے کے لیے عربی کا سیکھنا اور جاننا بے حد اہم ہے۔[3] تدوین حدیث میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا نہج وطرز آپ نے تدوین حدیث میں بے حد مضبوط، صاف سیدھا اور محتاط طرز اختیار کیا اور آپ نے اس کے لیے کڑی شرائط رکھیں اور اس کے لیے نہایت مفید پیمانے مقرر کیے۔ ذیل کی تفصیلات سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔ آپ نے تدوین حدیث کے لیے نہایت پختہ علماء کا انتخاب کیا، چنانچہ تدوین حدیث کی نازک ذمہ داری آپ نے جن علماء کے کندھوں پر ڈالی، وہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے علماء تھے۔ چنانچہ ایک ابوبکر بن حزم ہی کو لے لیجئے، جو علم کا برتن اور اپنے زمانے کے عبقری عالم تھے، امام مالک ان کے بارے میں کہتے ہیں: ’’میں نے ابوبکر بن حزم سے زیادہ مروت والا اور کامل الحال کوئی شخص نہیں دیکھا اور جو خوبیاں ان میں تھیں میں نے وہ خوبیاں کسی اور میں نہیں دیکھیں۔‘‘ آپ مدینہ کے والی، قاضی اور امیر حج تھے۔ اور آپ سچے اور بے پناہ حدیثوں والے تھے۔ ابن سعد کہتے ہیں: ابوبکر بن حزم ثقہ، عالم اور کثیر الحدیث تھے۔ آپ نے ۱۲۰ہجری میں وفات پائی۔[4] پھر زہری جیسی نابغۂ روزگار شخصیت ہمیں اس نازک ترین کام پر مامور نظر آتی ہے ان کے فضائل ومناقب ہم گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں۔ یہیں سے ہمیں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے حسن انتخاب کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ ۲۔ دوسرے آپ نے جن علماء کے ذمے یہ کام لگایا انہیں مطلقاً جمع وتدوین کا حکم دیا۔ آپ نے اس فن
[1] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ ص۷۹۔ [2] فتح الباری: ۱/ ۱۹۵۔ [3] عمر بن عبدالعزیز للشرقاوی: ص ۱۷۸۔ [4] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۳۱۳، ۳۱۴۔