کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 312
کہ علم مٹ جائے گا ، علماء گزر جائیں گے اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو قبول کرو۔ اور آپ لوگ علم پھیلانے بیٹھ جائیے۔ یہاں تک کہ اس چیز کا علم حاصل ہو جائے جو نہیں معلوم۔ کیونکہ علم ہلاک نہیں ہوتا، یہاں تک کہ علم مخفی ہو جائے۔[1] ابن سعد عبداللہ بن دینار سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو یہ خط لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یا سنت یا عمرہ بنت عبدالرحمن کی حدیث کو دیکھو اور اس کو لکھ لو کیونکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ علم مٹ جائے اور علم والے چلے جائیں گے۔‘‘[2] ۲۔ اسی طرح آپ نے ایسا ہی ایک خط امام حجت ابن شہاب زہری کو لکھا۔ چنانچہ ابن عبدالبر ابن شہاب زہری سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہمیں سنن جمع کرنے کا حکم دیا تو ہم نے سنن کو الگ الگ دفتروں میں لکھ لیا، پھر آپ کے زیر خلافت ہر ولایت میں ایک ایک دفتر بھیج دیا۔[3] ابوعبید کی روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابن شہاب کو حکم لکھ بھیجا کہ وہ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف کی بابت انہیں سنن کو جمع کر کے لکھ بھیجیں۔ امام زہری نے آپ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے یہ کام شروع کر دیا اور ایک طویل خط میں یہ ساری تفصیل لکھ بھیجی۔[4]یہیں سے ابن حجررحمہ اللہ نے یہ قول کیا کہ پہلی صدی ہجری کے آخر میں یہ زہری ہی تھے جنہوں نے عمر کے کہنے پر سب سے پہلے حدیث کو مدون کیا۔ زہری کے بعد تدوین وتصنیف کا کام بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہوگیا اور اس سے بے پناہ خیر حاصل ہوئی۔ پس ساری تعریف اللہ ہی کی ہے۔‘‘[5] ۳۔ بلکہ آپ نے تو تمام اہل مدینہ کو حدیث اور سنت جمع کرنے کا حکم لکھ بھیجا اور انہیں اس بات کی زبردست ترغیب دی کہ جو کچھ بھی کوئی جانتا ہے چاہے اسے چند احادیث ہی کیوں نہ یاد ہوں وہ انہیں جمع کر کے اس کار خیر میں شریک ہو۔ چنانچہ آپ نے اہل مدینہ کو لکھ بھیجا کہ دیکھو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بھی ہو اس کو لکھ لو کیونکہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے اٹھ جانے کا ڈر ہے۔[6] ۴۔ پھر آپ نے محض اتنی بات پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ خلافت اسلامیہ کے تمام بلاد وامصار میں یہ حکم لکھ بھیجا تاکہ ہر عالم اس کام میں لگ جائے کہ جو احادیث اس کے پاس ہیں یا اس نے ان احادیث کو
[1] فتح الباری: ۱/ ۱۹۴۔۱۹۵۔ [2] الطبقات اصول الدین: ص ۱۷۷، ۱۷۹۔ [3] جامع بیان العلم: ۱/ ۹۱، ۹۲۔ [4] الاموال: ص ۲۳۱۔ ۲۳۲۔ [5] فتح الباری: ۱/ ۲۰۸۔ [6] سنن الدارمی: ۱/ ۱۳۷۔