کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 310
چنانچہ روایاتِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تدوین حدیث کو جائز سمجھا اور اپنے لیے احادیث کو لکھا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تلامذہ نے ان کے سامنے احادیث کو لکھا اور پھر حدیث کے لکھنے اور یاد کرنے کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔[1] پھر اہل علم عظیم شخصیات اور غیور مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سنت مطہرہ کی تدوین، احادیث نبویہ کے جمع کرنے اور احادیث کو جعل سازی کے شائبوں تک سے پاک کرنے کے لیے حیرت انگیز محنتیں کیں۔ ان لوگوں نے اپنی ساری صلاحیتیں اس مقصد میں لگا دیں، اپنی راتوں کو بیدار کیا، دنوں کو بے آرام کیا، حتیٰ کہ خود کو خود نہ سمجھنا اور اپنا آپ بھلا کر دیوانہ وار حدیث کے حفظ وکتابت اور تدوین میں لگ گئے۔ پھر حدیث کی تلاش میں زمین کا چپہ چپہ چھان مارا۔ حدیث کے قبول اور ردّ کے لیے نہایت دقیق اصول وقواعد وضع کیے جن کو پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ پھر ان مبارک محنتوں کا نتیجہ امت مسلمہ کو رہتی دنیا تک کے لیے احادیث کے ان مشہور مجموعوں کی صورت میں ملا جن کے نام امت مسلمہ کے بچہ بچہ کی زبان پر ازبر ہیں۔ اور آج تک امت مسلمہ ان کو یاد کرتی اور پڑھتی چلی آرہی ہے۔ بے شک یہ سارا کام رب تعالیٰ کا ہے، پھر از حد شکر وسپاس کے مستحق وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان مجموعوں کو اکٹھا کیا۔ رب تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو روزِ قیامت ان محیرالعقول ہستیوں کی محنتوں کا قرار واقعی صلہ ان کو دے گی۔ ان شاء اللہ[2] اگرچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تدوین حدیث کا رسمی آغاز خلافت امویہ میں عبدالعزیز بن مروان (سیّدنا عمر کے والد) کے ہاتھوں اس وقت ہو چکا تھا جب وہ مصر کے امیر تھے جس کی قدرے تفصیل گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے۔ بہرحال یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ تدوین حدیث کا باضابطہ آغاز سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور خلافت میں ہوا تھا۔ اور یہ حقیقت آپ کے خطوط ورسائل، خطبات ومواعظ اور ارشادات و اوامر میں خوب روشن ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے جن میں آپ علم کی کتابت اور حدیث کی تدوین کی طرف بار بار آمرانہ وواعظانہ انداز میں مشاہیر علماء ومحدثین کو متوجہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جیسے آپ فرماتے ہیں: ’’اے لوگو! اس علم کو شکر اور کتابت کے ذریعے اپنے پاس باندھ کر رکھو۔‘‘[3] پھر آپ نے لوگوں کو محض اس ارشاد وترغیب تک ہی محدود نہ رکھا بلکہ بحیثیت خلیفۃ المسلمین کے بعض ائمہ علماء کو اس بات کا سرکاری فرمان جاری کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن واحادیث کو جمع کریں۔ چنانچہ آپ نے نہایت دقت نظری کے ساتھ ان تابعین کو ڈھونڈ نکالا جو بے پناہ علم کے مالک تھے، ان کے دامن ذخیرۂ احادیث سے لبریز تھے اور وہ کتابت حدیث کے جواز کے قائل بھی تھے۔ دوسرے آپ کو اس بات کا
[1] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ: ص ۷۵۔ [2] ایضًا [3] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ: ص ۷۶۔