کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 309
واخبار کی معرفت اور اشعار عرب کی واقفیت وغیرہ۔ پھر مزید یہ کہ لغت کی فقہ کی بھی معرفت ہو جیسے اشتقاق، ایجاز، حذف تقدیم، تاخیر وغیرہ اسباب[1] کہ جن کی بنا پر تابعین میں لغت کے ساتھ تفسیر کرنے کے مشارب متعدد اور متنوع ہوتے چلے گئے۔ ۵۔ اجتہاد تفسیر میں تابعین کے اجتہادات کا آغاز دور صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہی شروع ہوگیا تھا، تابعین کے اجتہاد کے متعدد مواقع ہیں۔ اور ان میں غالب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ان کے اجتہاد پر سکوت فرمانا ہے۔ تابعین کے چند اہم تفسیری اجتہادات کو ذیل میں نقل کیا جاتا ہے: الف: نص کی مراد کو بیان کرنا، کہ جب نص کی مراد اور دلالت لفظ کے اجمال یا ترکیب کی بنا پر خفی ہو۔ ب: نصوصِ قرآنیہ سے بعض احکام کا استنباط۔ ج: متشابہ کلمات ومعانی کے درمیان فرق کو بیان کرنا اور نظائر کی تفسیر بیان کرنا۔ س: قرآن کریم کے دقیق علوم پر نہایت گہری توجہ، جیسے آیات کی تعداد اور کلمات قرآنیہ کی گنتی کی مباحث وغیرہ۔[2] تابعین کی تفسیر آیات میں اجتہاد کی امتیازی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں: ٭ اجتہاد کی عبارات کا تنوع اور تعداد۔ ٭ ایجاز غیر مخل (یعنی ایسا اختصار جس سے معانی میں خلل واقع نہ ہو)۔ ٭ گہرا غور و فکر اور تفسیر میں دقت نظری۔ ٭ قوت استنباط ۵… سنت کی خدمت میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور حضرات تابعین عظام کی محنتیں اوّل اوّل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے علاوہ کچھ بھی لکھنے سے منع فرمایا کیونکہ اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں قرآن اور غیر قرآن کی عبارات ایک دوسرے میں گڈ مڈ نہ ہو جائیں۔ اور لوگ رب تعالیٰ کی کتاب کو لکھنے کے بجائے دوسری باتوں میں مشغول نہ ہو جائیں۔ پھر یہ امر منسوخ ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی تدوین کی غرض سے قرآن کے علاوہ حدیث لکھنے کی بھی اجازت دے دی۔ اور اب حدیث لکھنا بھی جائز قرار دے دیا گیا۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کتابت کی اجازت اور مطلق اباحت تھی۔[3]
[1] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۸۹، ۷۰۷۔ [2] ایضًا : ۲/ ۷۱۱۔ [3] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ ، ص ۷۴۔