کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 308
ترجیح یہاں وہ مرفوع اثر ہے۔ جس کو حسن بصری حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صلوٰۃ وسطیٰ نماز عصر ہے۔‘‘[1]
پھر ترجیح کبھی کسی دوسرے صحابی کے ایسے قول کی بنا پر دی جاتی ہے جو آیت کے عموم کو اس کی بابت وارد خصوص پر مقدم کرتا ہے اور اس کے ذریعے جملہ اقوال میں جمع کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَo} (الکوثر: ۱)
’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) ہم نے تم کوثر عطا فرمائی ہے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے کوثر کی یہ تفسیر منقول ہے کہ ’’یہ جنت کی ایک نہر کا نام ہے۔‘‘[2] جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کوثر سے مراد خیر کثیر ہے جو رب تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی۔‘‘[3]سعید بن جبیر نے بھی اسی قول کو لیا۔ چنانچہ کسی موقع پر ابو بشر نے سعید بن جبیر سے کہا کہ ’’ہم سنتے تھے کہ ’’کوثر‘‘ جنت کی اس نہر کا نام ہے جو اس خیر سے ہے جو رب تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہے۔[4] پس یہاں پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے استنباء کرتے ہوئے سعید بن جبیر نے مذکورہ آیت کے عموم کو ترجیح دی اور اس بابت وارد اس اثر کو نہیں لیا جو خصوص کو بیان کرتا ہے۔ اور جب کسی آیت کی تفسیر میں کسی صحابی کا قول بھی نہیں ملتا تو جو اجتہاد کا اہل ہوتا ہے وہ اجتہاد کر لیتا ہے۔[5]
غرض تفسیر کے باب میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی اقوال کو لینے اور ان پر اعتماد کرنے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی اقوال وآثار اور اخبار و روایات کو نہایت دقت نظری کے ساتھ کتابوں میں محفوظ کر لیا گیا۔ پھر ان کے احوال کی نہایت عرق ریزی کے ساتھ معرفت حاصل کی گئی۔ ان کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا، ان کے مناہج کا التزام کیا گیا، ان کے اقوال سے استفادہ کیا گیا اور مذاہب ومسالک کی بنیاد بھی اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم پر ہی رکھی گئی۔[6]
۴۔ لغت العربیہ
تفسیر کے باب میں لغت پر اعتماد کرنے اور لغت کو تفسیر کا ایک مصدر قرار دینے میں حضرات تابعین کے مشارب متنوع ومتعدد ہیں اور اس کے متعدد اسباب ہیں۔ جیسے لغت عرب کی معرفت، عربوں کی عادات
[1] تفسیر الطبری: ۵/ ۱۹۴، رقم: ۵۴۳۸۔
[2] زاد المسیر: ۹/ ۲۴۸۔
[3] الدر المنثور: ۸/ ۶۴۹۔
[4] زاد المسیر: ۹/ ۲۴۸۔
[5] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۶۱۔
[6] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۷۲،۶۷۷۔