کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 307
ج: حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول اقوال میں تعارض: …جب کسی آیت کی تفسیر میں منقول حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال میں تعارض ہو جائے تو اس وقت تابعین ان میں ترجیح کے مسلک کو اختیار کرتے ہیں، پھر یہ ترجیح کبھی تو لغت کی بنا پر ہوتی یا کسی حدیث کی بنا پر، یا کسی دوسرے صحابی کے قول کی بنا پر جو سب اقوال میں جمع کی صورت میں پیدا کر دے۔ پہلی صورت کی مثال (یعنی تعارض اقوال کے وقت لغت کے ذریعے ترجیح کی مثال) یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ} (الاسراء: ۷۸)
’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) سورج کے ڈھلنے سے (رات کے اندھیرے تک ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نمازیں پڑھا کرو۔‘‘
اب آیت میں مذکورہ لفظ ’’دلوک‘‘ کی بابت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعدد اقوال منقول ہیں چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ دلوک سے مراد غروب آفتاب ہے۔[1] اور آپ سے یہ (بھی) مروی ہے کہ آفتاب کے دلوک سے مراد نصف النہار کے بعد اس کا ڈھلنا ہے۔[2] حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دلوک سے مراد غروب آفتاب ہے۔[3] ایک روایت میں زوال آفتاب مراد ہے۔[4] اب قتادہ نے دلوک سے زوال مراد لے کر آیت کی اس معنی کے ساتھ تفسیر بیان کی ہے۔[5] لیکن اس کے ساتھ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ بھی نقل کر دیا ہے کہ دلوک سے مراد غروب آفتاب ہے۔[6] قتادہ کے اس تفسیر کو اختیار کرنے کا منشا شاید یہ ہو کہ لغت میں دلوک کا معنی میلان یعنی جھکاؤ لکھا ہے۔ تب پھر اس سے مراد ظہر کی نماز ہے (جو زوال آفتاب کے بعد پڑھی جاتی ہے) ابن جریر نے اس معنی کو راجح قرار دے کر پہلے قول کے ساتھ (کہ دلوک سے مراد غروب ہے) مناقشہ کیا ہے۔[7]
تعارض اقوال کے وقت ترجیح اختیار کرنے کی دوسری صورت کسی مرفوع اثر کو لینا ہے، جیسا کہ قتادہ سعید بن مسیب سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’صلوۃ وسطیٰ سے کیا مراد ہے؟ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس کی تفسیر میں اختلاف تھا، پھر سعید بن مسیب نے اپنی دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈال کر دکھایا[8] یا (کہ یہ اختلاف کافی زیادہ تھا) حسن بصری اس تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس سے مراد نماز عصر ہے۔[9] اور اس باب میں وہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرتے ہیں (جن کی تعداد زیادہ ہے) اور سبب
[1] تفسیر الطبری: ۱۵/ ۱۳۴۔
[2] فتح القدیر: ۳/ ۲۵۴۔
[3] زاد المسیر: ۵/ ۷۲۔
[4] فتح القدیر: ۳/ ۲۵۴۔
[5] زاد المسیر: ۵/ ۷۲۔
[6] زاد المسیر: ۵/ ۷۲۔
[7] تفسیر الطبری: ۱۵/ ۱۳۶۔۱۳۷۔
[8] زاد المسیر: ۱/ ۲۸۲۔
[9] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۶۱۔