کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 306
پر آکر ٹھہر جاتے ہیں (اور آگے بڑھ کر اپنی رائے پیش نہیں کرتے) کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان امور میں ہرگز تجاوز نہیں کرتے (کہ ایسے امور میں بھی صحابی رسول کی بیان کردہ تفسیر اور ذکر کردہ قول معتبر اور قول فیصل ہوتا ہے) کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم کے اترنے کا مشاہدہ کیا ہے، اس کی مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{حَتّٰٓی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَo} (الانعام: ۶۱)
’’اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تمھارے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’ملک الموت کے فرشتوں میں سے کچھ اعوان ومددگار ہوتے ہیں۔ (جن کے ساتھ مل کر وہ بندوں کی روح قبض کرتا ہے)۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی یہ تفسیر ابراہیم نے روایت کی ہے۔‘‘[1]
یہی وجہ ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں ابراہیم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اسی قول کو بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور مزید کچھ ذکر نہیں کرتے، چنانچہ ابراہیم بھی یہی کہتے ہیں: ’’ملک الموت کے مددگار۔‘‘[2]اسی طرح یہی تفسیر قتادہ مجاہد اور ربیع سے منقول ہے۔[3]
ب: جب صحابی سے مروی تفسیر اجتہاد کے باب سے ہو:…… اور وہ لغت کے مقتضیٰ پر جاری ہو تو اغلب یہ ہے کہ تابعین حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ ایسی تفسیر کی بھی مخالفت نہیں کرتے کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زبان وبیان اور فہم و فراست کے مالک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مجاہد جب اس ارشاد باری تعالیٰ: {فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌ} (الانعام: ۹۸) ’’پھر (تمہارے لیے) ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپرد ہونے کی۔‘‘ کی تفسیر بیان کرنے لگتے ہیں تو صرف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بیان کردہ تفسیر پر ہی اعتماد کرتے ہیں نا کہ کسی دوسرے کے قول پر۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ٹھہرنے کی جگہ زمین میں ہے اور سپرد کیے جانے کی جگہ رب رحمن کے پاس ہے۔‘‘[4] ایک دوسری روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ’’ٹھہرنے کی جگہ رحم مادر میں ہے اور سپرد کیے جانے کی جگہ صلب پدر میں ہے۔‘‘[5]
یہ تفسیر دوسری روایت کے موافق ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ابن جبیر سے بھی یہی منقول ہے۔[6]
[1] تفسیر الطبری: ۱۱/ ۴۱۰۔
[2] ایضًا
[3] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۵۸۔
[4] ایضًا
[5] تفسیر الطبری: ۱۱/ ۵۷۰۔
[6] ایضًا