کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 305
ھ: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ} (البقرۃ: ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔‘‘
آیت میں مذکورہ لفظ ’’امت وسط‘‘ کی تفسیر ایک حدیث میں ’’عدول‘‘[1] کے ساتھ آتی ہے۔ اور یہی تفسیر مجاہد، عطاء اور قتادہ نے بھی بیان کی ہے۔[2]یہ چند مثالیں صرف اس لیے ذکر کی گئی ہیں کہ کس طرح حضرات تابعین عظام قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے وقت احادیث نبویہ پر اعتماد کیا کرتے تھے۔
۳۔ تفسیر قرآن اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ
حضرات تابعین عظام نے کتاب وسنت کو حاصل کرنے کا اور اسی طرح اجتہاد کرنے کا جو ملکہ بھی حاصل کیا، وہ سب کا سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت، ان کی وسیع معلومات ومہارت اور مناہج استدلالیہ کا نتیجہ تھا، تابعین نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے استنباط کے طریقے سیکھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات کو حاصل کیا پھر ان حضرات کی پاکیزہ زندگیوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات کی سو فیصد عملی تطبیق بھی دیکھی۔ چنانچہ تابعین عظام نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسالت و دعوت کو پورا پورا حاصل کیا، ان کے علم وفضل اور بزرگی وجلالت کو کما حقہ پہچانا، اسی لیے تو تابعی جلیل حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’علماء تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔‘‘[3]
تابعین حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کو اپنے اقوال پر مقدم رکھا کرتے تھے۔ شعبی رحمہ اللہ کہتے تھے: ’’جب کسی بات میں لوگوں کا اختلاف ہو جائے تو یہ دیکھنا کہ اس بات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کیا تھا۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب تک مشورہ نہ کر لیا کرتے تھے کچھ نہ کرتے تھے۔‘‘ اس اثر کے راوی اشعث کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات جب ابن سیرین رحمہ اللہ کے سامنے ذکر کی تو انہوں نے فرمایا: ’’جب تم کسی شخص کو یہ کہتے دیکھو کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ جانتا ہوں تو اس سے بچ کر رہنا۔‘‘[4]
اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کو لینے کی بابت تابعین کے منہج کا مدار یہ امور تھے۔
الف: جب ایک صحابی کی تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع ہو: ……کہ یہی بنیادی مطلوب اور منتہائے مقصود ہے اور اس کے بعد کوئی دوسرا قول بھی نہیں۔ یہی حکم سببِ نزول کی بابت صریح صیغہ کے ساتھ مروی صحابی کی تفسیر کا بھی ہے۔[5] اسی طرح جن امور میں رائے کا مطلق دخل نہیں ہوتا اور ان امور
[1] مجمع الزوائد: ۶/ ۳۱۶۔
[2] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۴۱۔
[3] اعلام الموقعین: ۱/ ۱۵۔
[4] الحلیۃ: ۴/ ۳۲۰۔
[5] یعنی ’’اس آیت کا سبب نزول یہ ہے۔‘‘ یا ’’فلاں واقعہ ہوا جس بنا پر یہ آیت اتری‘‘ یا اس طرح کے صریح صیغے۔