کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 304
ج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ} (الانعام: ۸۲) ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا۔‘‘ اس آیت میں مذکورہ ظلم کی تفسیر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما دی ہے، چنانچہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ آیت گراں گزری اور انہوں نے خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے ایمان کو ظلم سے مخلوط نہ کیا ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(ظلم سے مراد) یہ نہیں (جو تم سمجھے ہو) کیا تم لوگوں نے لقمان کا یہ قول نہیں سنا: {اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌo} (لقمان: ۱۳) ’’(بیٹا! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا) شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے۔‘‘[1] (غرض اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ سورئہ انعام کی مذکورہ آیت میں ظلم سے شرک مراد ہے) اور یہی تفسیر ابراہیم نخعی، قتادہ، مجاہد اور سعید بن جبیر جیسے اجل تابعین سے بھی منقول ہے۔‘‘[2] د: ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَo} (الحجر: ۸۷) ’’اور بلاشبہ یقینا ہم نے تجھے بار بار دھرائی جانے والی سات آیتیں اور بہت عظمت والا قرآن عطا کیا ہے۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث مروی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا: ’’کیا میں مسجد سے نکلنے سے قبل تمہیں قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت نہ سکھلاؤں؟‘‘ (راوی کہتے ہیں) پھر (جب) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دلایا (کہ آپ نے تو مجھے مسجد سے نکلنے سے قبل قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت تعلیم فرمانی تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت) ’’الحمد للّٰہ رب العالمین‘‘ ہے، یہی ’’سبع مثانی‘‘ اور عظمت والا قرآن ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔‘‘[3] سبع مثانی کی یہی تفسیر سعید بن جبیر، حسن، قتادہ اور مجاہد سے بھی مروی ہے۔[4]
[1] صحیح البخاری، کتاب التفسیر، الفتح: ۸/ ۲۹۴۔ [2] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۳۹۔ [3] صحیح البخاری، کتاب التفسیر، الفتح: ۸/ ۳۸۱۔ [4] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۴۱۔