کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 303
’’پہلے میں اس مسئلہ کی بابت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تلاش کرتا ہوں۔ اگر سنت نہ ملے تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کو لیتا ہوں اور اگر کسی صحابی کا قول بھی نہ ملے تو پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘[1]
حضرات تابعین عظام رحمہم اللہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف کس قدر عنایت اور اس کی قدر ورعایت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمیں یہ بات بہت کم دیکھنے میں ملے گی کہ انہوں نے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے وقت کبھی کسی صحیح ثابت حدیث کی مخالفت کی ہو۔ ذیل میں اس کی چند مثالیں بیان کی جاتی ہیں:
الف: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنo} (الفاتحۃ: ۷)
’’نہ ان کے (رستے پر چلانا) جن پر تو غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے: مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ یہ یہود ہیں اور ضلال یہ نصاریٰ ہیں۔[2]
یہی تفسیر مجاہد[3] اور سعید بن جبیر[4] سے بھی منقول ہے۔ ابن حاتم کہتے ہیں: مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ اور ضالین کی اس مذکورہ تفسیر میں مجھے علماء میں کہیں اختلاف نظر نہیں آتا۔[5]
ب: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ} (البقرۃ: ۱۸۷)
’’اور کھائو اور پیو، یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہو جائے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد منقول ہے کہ ’’یہ (سیاہ دھاری) رات کی تاریکی اور (سفید دھاری) دن کی سفیدی ہے۔‘‘[6]
اس تفسیر کے خلاف کسی تابعی کا ایک قول بھی مروی نہیں اور یہی تفسیر حسن[7] اور قتادہ[8] سے بھی منقول ہے۔
[1] جامع بیان العلم وفضلہ: ۲/ ۷۵۔
[2] موارد الظمآن فی زوائد ابن حبان، رقم: ۲۲۴۔
[3] تفسیر الطبری: ۱/ ۱۸۸۔
[4] الدر المنثور: : ۱/ ۴۱۔
[5] تفسیر ابن ابی حاتم، رقم: ۲۲۔
[6] صحیح البخاری، کتاب التفسیر، الفتح: ۸/ ۱۸۲۔
[7] تفسیر الطبری: ۳/ ۵۱۰۔
[8] تفسیر الطبری: ۳/ ۵۱۰۔