کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 301
{یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُo} (النازعات: ۶)
’’جس دن زمین کو بھونچال آئے گا۔‘‘
حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’یہ دو نفخے ہیں: پہلا نفخہ سب زندہ چیزوں کو مار دے گا۔ جبکہ دوسرا نفخہ ان کو زندہ کر دے گا۔ پھر اس کی دلیل میں انہوں نے یہ آیت تلاوت کی:
{وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِِلَّا مَنْ شَآئَ اللّٰہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرَی فَاِِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَنْظُرُوْنَo} (الزمر: ۶۸)
’’اور صور میں پھونکا جائے گا تو جو لوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہوں گے، مر کر گر جائیں گے مگرجسے اللہ نے چاہا، پھر اس میں دوسری دفعہ پھونکا جائے گا تو اچانک وہ کھڑے دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘[1]
غرض قرآن کریم کی قرآن کے ذریعے تفسیر کرنے کی بابت تابعین کے تفسیری نمونے بے شمار ہیں، ہم نے ان میں سے چند ایک کو ذکر کیا ہے، جو مزید جاننا چاہتا ہے وہ ’’تفسیر التابعین‘‘ کا مطالعہ کرے۔[2]
۲۔ قرآن کریم کی سنت کے ذریعے تفسیر
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سنت قرآن کریم کی تفسیر وتوضیح بیان کرتی ہے۔ شاطبی کہتے ہیں: ’’سنت اپنے معنی میں قرآن کی ہی طرف راجع ہے۔ چنانچہ سنت قرآن کے مجمل کی تفصیل، اس کے مشکل کا بیان اور اس کے اختصار کی شرح ہے۔[3] اور اس کی بے غبار وجہ یہ ہے کہ رب تعالیٰ کے کلام کو سب سے زیادہ جاننے والے اور کسی بھی دوسرے فرد سے اس کی نصوص کی کہیں زیادہ فہم رکھنے والے خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن پر یہ کلام اترا، اور اس پر مستزاد یہ کہ رب تعالیٰ نے خود آپ کو اپنی کتاب کے معانی وحی فرمائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی اس آیت کا مصداق ہیں:
{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo} (النجم: ۳۔۴)
’’اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے ۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’مجھے قرآن اور اسی جتنا اور بھی (اس کے ساتھ) دیا گیا۔‘‘[4] (جو اس قرآن کی تفسیر و توضیح ہے)۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی یہ پوچھے کہ قرآن کریم کی تفسیر کا سب سے عمدہ طریقہ کون
[1] تفسیر الطبری: ۳۰/ ۳۱۔
[2] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۰۸، ۶۲۷۔
[3] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۲۸۔
[4] سنن ابی داؤد: ۴۶۰۶۔