کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 300
(ز) مبہم کی توضیح کرنے کے ساتھ تفسیر:…… حضرات تابعین عظام رحمہم اللہ نے تفسیر کے جن متعدد طرق کو اختیار کیا ان میں سے ایک طریق مبہم آیت کی دوسری آیت کے ذریعے تفسیر بیان کرنا ہے تاکہ آیت کا ابہام رفع ہو۔[1]
اس کی مثال لفظ ’’حین‘‘ ہے جس میں ابہام ہے (کہ اس سے مراد زمانے کا کتنا عرصہ ہے) جناب عکرمہ رحمہ اللہ نے اس لفظ کے ابہام کو دور کرنے کے لیے ایک دوسری آیت سے استدلال کیا جو یہ بتلاتی ہے کہ ’’حین‘‘ سے مراد ایک سال ہے۔ چنانچہ عکرمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مجھے بلوا بھیجا اور پوچھا: ’’اے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام! میں نے ان الفاظ کے ساتھ قسم کھا لی ہے کہ ’’میں فلاں فلاں کام ’’حین‘‘ تک نہ کروں گا۔‘‘ اب ’’حین‘‘ سے کتنی مدت مراد ہے، مجھے معلوم نہیں کیا، آپ جانتے ہیں کہ اس سے کتنی مدت مراد ہے؟ میں نے عرض کیا: ’’حین‘‘ سے زمانے کا ایک وہ عرصہ مراد ہے جس کا ادراک نہیں کیا جا سکتا ہے اور ایک وہ عرصہ مراد ہے جس کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔ رہا وہ ’’حین‘‘ جس کی مدت کا ادراک نہیں کیا جا سکتا تو اس کا ذکر اس آیت میں ہے:
{ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِِنسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًاo} (الدھر: ۱)
’’کیا انسان پر زمانے میں سے کوئی ایسا وقت گزرا ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں تھا جس کا (کہیں) ذکر ہوا ہو؟‘‘
اللہ کی قسم! کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے کہ انسان کے پیدا ہونے سے پہلے تک کا زمانہ کتنا ہے۔ اور رہا وہ حین جس کی مدت کا ادراک کیا جا سکتا ہے، اس کا ذکر اس آیت میں ہے:
{تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا} (ابراہیم: ۲۵)
’’اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل (لاتا اور میوے) دیتا ہو۔‘‘
اور پھل دینے کی یہ مدت ایک سال سے اگلے سال تک ہے۔‘‘ یہ سن کر سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام! تم نے بالکل درست کہا اور کیا خوب کہا۔[2]
(ح) کسی لفظ کے معنی کو بیان کرنا یا کسی مشکل لفظ کو واضح کرنا:…… تفسیر کی یہ قسم تابعین کی تفسیروں میں کثرت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ چنانچہ وہ قرآن کریم کی کسی ایک آیت میں مذکورہ الفاظ کی تفسیر قرآن کریم ہی کی دوسری آیت میں مذکور الفاظ سے کرتے ہیں جن سے پہلی آیت کے الفاظ کے معانی واضح ہو جاتے ہیں۔[3]جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[1] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۲۴۔
[2] تفسیر الطبری: ۱۶/ ۵۸۱۔
[3] تفسیر الطبری: ۲/ ۶۲۶۔