کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 299
میں بیان ہوا) حسن بصری رحمہ اللہ سے ایک اور روایت میں منقول ہے کہ {وَ ہَلْ نُجٰزِیْٓ اِلَّا الْکَفُوْرَ} (سباء: ۱۷) ’’اس سے مراد کفار ہیں ناکہ اہل صلوٰۃ۔‘‘[1]
پس پہلی آیت میں عموم تھا جو لفظ مَنْ سے حاصل ہوتا تھا تاکہ یہ لفظ مومن اور کافر دونوں کو عام ہو۔ پھر حسن بصری رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ یہاں ’’مَنْ ‘‘ میں عموم نہیں بلکہ یہ کفار کے ساتھ خاص ہے اور اس کی دلیل میں انہوں نے سورۂ سبا کی آیت کو پیش کیا جس میں حصر کے ساتھ صرف کفار ہی مراد ہیں۔ چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ نے دوسری آیت میں مذکور اسلوب حصر سے استدلال کرتے ہوئے پہلی آیت کے عموم کو صرف کفار کے ساتھ خاص کر دیا۔[2] اس آیت کی تفسیر میں اس سے بھی زیادہ صریح عبارت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: {وَ ہَلْ نُجٰزِیْٓ اِلَّا الْکَفُوْرَ} (سباء: ۱۷) یہ اس شخص کے لیے ہے جس کی ذلت ورسوائی کا رب تعالیٰ ارادہ فرما لیتا ہے البتہ جس کی عزت واکرام کا ارادہ فرماتے ہیں وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَo} (الاحقاف: ۱۶)
’’(یہ) سچا وعدہ (ہے) جو ان سے کیا جاتا ہے۔‘‘[3]
(و) لازم کے ساتھ تفسیر:…… تفسیر باللازم سے مراد یہ ہے کہ مفسر جس آیت کی تفسیر بیان کرنے میں لگا ہوتا ہے اس کی تفسیر کو صراحتاً بیان نہیں کرتا بلکہ اس تفسیر کے بعض لازم معانی کو بیان کر دیتا ہے اور اس لازم معنیٰ کو کسی دوسری آیت کے ساتھ مربوط کر دیتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo} (البقرۃ: ۱۵۶)
’’ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ ’’اگر یہ کلمہ (یعنی انا للہ…) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کو دیا جاتا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیا جاتا، کیا تم نہیں سنتے کہ انہوں نے (اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بعد بنیامین کی جدائی پر بجائے انا اللّٰہ… پڑھنے کے) یہ کہا:
{یٰٓاَسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ} (یوسف: ۸۴)
’’ہائے افسوس یوسف (ہائے افسوس)۔‘‘ [4]
کہ جناب یعقوب علیہ السلام اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ (کا کلمہ) نہیں جانتے تھے وگرنہ جناب یوسف علیہ السلام کی گم شدگی پر بجائے افسوس کا اظہار کرنے کے اس کلمہ کو ضرور پڑھتے۔[5]
[1] تفسیر الطبری: ۹/ ۲۳۸۔
[2] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۲۳۔
[3] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۲۳۔
[4] تفسیر الطبری: ۳/ ۲۲۴۔
[5] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۲۳۔