کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 298
یہ مجمل کو مبین پر محمول کرنے کی طرح ہے، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًاo} (نوح: ۱۴)
’’اور اس نے تم کو طرح طرح (کی حالتوں) کا پیدا کیا ہے۔‘‘
مجاہد اس آیت کی تفسیر میں یہ کہتے ہیں کہ یہ طرح طرح کا پیدا کرنا یہ ہے کہ پہلے مٹی سے، پھر نطفہ سے، پھر لوتھڑے سے اسی طرح خلق کی تکمیل تک ہے۔[1] قتادہ رحمہ اللہ کا اشارہ دراصل اس ارشاد باری تعالیٰ کی طرف ہے:
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طِیْنٍo ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍo ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَئْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَo}(المومنون: ۱۲۔ ۱۴)
’’اور بلاشبہ یقینا ہم نے انسان کو حقیر مٹی کے ایک خلاصے سے پیدا کیا۔پھر ہم نے اسے ایک قطرہ بنا کر ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا۔پھرہم نے اس قطرے کو ایک جماہوا خون بنایا، پھر ہم نے اس جمے ہوئے خون کو ایک بوٹی بنایا، پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں کو کچھ گوشت پہنایا، پھر ہم نے اسے ایک اور صورت میں پیدا کر دیا، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو پیدا کرنے والوں میں سب سے اچھا ہے۔‘‘
(ھ) عام کی تفسیر خاص کے ساتھ:… تفسیر کے اس نہج میں ایک مفسر اس آیت کو لیتا ہے جس کے ظاہر میں عموم ہوتا ہے۔ پھر وہ اس آیت کو ایک دوسری آیت میں مذکور دوسرے معنی پر محمول کرتا ہے جو پہلی آیت کے اَفرادِ معنی میں سے جس میں عموم ہوتا، ایک خاص فرد پر دلالت کرتی ہے۔[2] جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا یُّجْزَ بِہٖ} (النسآء: ۱۲۳)
’’جو شخص برے عمل کرے گا۔ اسے اسی (طرح) کا بدلا دیا جائے گا۔‘‘
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت میں (اگرچہ بظاہر عموم نظر آتا ہے مگر) مراد کافر ہے، پھر انہوں نے (دلیل میں) یہ آیت تلاوت کی:
{وَ ہَلْ نُجٰزِیْٓ اِلَّا الْکَفُوْرَo} (سباء: ۱۷)
’’اور ہم سزا کافر ہی کو دیا کرتے ہیں۔‘‘
اور فرمایا کہ ’’(گزشتہ آیت میں مذکور لفظ) مَنْ (کہ اس سے مراد) کفار ہیں۔[3] (جیسا کہ اس آیت
[1] تفسیر الطبری: ۲۹/ ۲۳۷۔
[2] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۲۱۔
[3] تفسیر الطبری: ۹/ ۲۳۷۔