کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 297
’’جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا۔‘‘ یعنی کیوں نہ انہیں نیک کہا۔ (کہ یہاں نفس بمعنی غیر یعنی دوسرا ہے، یعنی جب مومن مردوں اور عورتوں نے یہ بات سنی تو انہوں نے اس کے بارے میں کیوں نیک گمان نہ کیا جس کے بارے میں یہ بات کہی جا رہی تھی)۔ آگے قتادہ کہتے ہیں کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ رب تعالیٰ یہ ارشاد فرماتے ہیں: {وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ} (النسآء: ۲۹) ’’اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔‘‘ یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو (کہ یہاں بھی نفس سے مراد ’’غیر‘‘ یعنی دوسرا ہے) اور فرمایا: {فَسَلِّمُوْا عَلٰی اَنفُسِکُمْ} (النور: ۶۱) ’’تو اپنے (گھر والوں) کو سلام کیا کرو۔‘‘ یعنی ایک دوسرے کو سلام کیا کرو۔[1] (کہ یہاں بھی نفس سے مراد دوسرا یعنی غیر ہے) پس ان آیات میں مجاہد رحمہ اللہ نے نفس کی تفسیر ’’غیر‘‘ سے کی ہے۔ اور اس کے استدلال میں قرآن کریم کی ان آیات کو ذکر کیا جو اس سے ملتی جلتی تھی اور وہ اس آیت کے معنی کے ایک جز پر دلالت کرتی ہیں۔[2] (ج) سیاق آیت سے تفسیر:…… تفسیر کے اس طریق میں ایک مفسر آیت کے سیاق کو ملحوظ رکھتا اور اسے ماقبل کے ساتھ یا پھر مابعد کے ساتھ مربوط کرتا ہے، چاہے سیاق وسباق کا یہ لحاظ ایک ہی آیت میں یا آیات کے ایک مجموعہ میں ہو۔[3] جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰہَآ اِبْرٰہِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ} (الانعام: ۸۳) ’’اور یہ ہماری دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلے میں عطا کی تھی۔‘‘ مجاہد کہتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر اس سے ماقبل کی یہ آیت ہے کہ وہ حجت یہ ہے: {اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ} (الانعام: ۸۲) ’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم سے مخلوط نہیں کیا۔‘‘[4] (د) بیان مجمل کے ساتھ تفسیر:…… تفسیر کے اس طریق میں ایک مفسر قرآن کریم کی مجمل آیات میں غور و فکر کرتا ہے اور پھر دوسری ایسی آیات میں غور کرتا ہے جو اس آیت میں مذکورہ اجمال کا بیان بن سکیں،
[1] تفسیر الطبری: ۱۸/ ۹۶۔ [2] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۱۶، [3] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۱۷۔ [4] تفسیر الطبری: ۱۱/ ۵۰۵۔