کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 296
اور سورئہ اعراف میں ارشاد فرمایا:
{وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَo} (الاعراف: ۲۰۵)
’’اور اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی سے اور خوف سے اور بلند آواز کے بغیر الفاظ سے صبح و شام یاد کر اور غافلوں سے نہ ہو۔‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{قُلْ اِنْ کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo} (البقرۃ: ۹۴)
’’کہہ دے اگر آخرت کا گھر اللہ کے ہاں سب لوگوں کو چھوڑ کر خاص تمھارے ہی لیے ہے تو موت کی آرزو کرو، اگر تم سچے ہو۔ ‘‘
قتادہ رحمہ اللہ سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد اس لیے فرمایا کیونکہ ان یہود ونصاریٰ نے یہ کہا تھا:
{لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی} (البقرۃ: ۱۱۱)
’’یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی بہشت میں نہیں جائے گا۔‘‘
اور یہ بھی کہا:
{نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ} (المآئدۃ: ۱۸)
’’ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔‘‘
اس پر انہیں یہ کہا گیا :
{فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo} (البقرۃ: ۹۴)
’’تو اگر سچے ہو تو موت کی آرزو تو کرو۔‘‘[1]
(ب) الاشباہ:…… اشباہ سے مراد ایک آیت کی ان آیات سے تفسیر کرنا جو اس کے مشابہ ہوں۔ جیسے ایک آیت کی تفسیر ان آیات سے کرنا جو اس کے بعض معانی کو لیے ہوئے ہوں اور ان کے الفاظ بھی ملتے جلتے ہوں۔[2]
جیسے مجاہد رحمہ اللہ کا ’’نفس‘‘ کی تفسیر ’’غیر‘‘ سے کرنا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{لَوْلَا اِِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِاَنفُسِہِمْ خَیْرًا} (النور: ۱۲)
[1] فتح القدیر: ۱/ ۱۱۶۔
[2] تفسیر التابعین: ۲/ ۶۱۵۔