کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 295
۴… قرآن کریم کی تفسیر میں تابعین کا منہج
قرآن کریم کی تفسیر کی بابت حضرات تابعین عظام رحمہم اللہ کا منہج بالکل واضح تھا۔ چنانچہ وہ قرآن کریم کی تفسیر خود قرآن سے، پھر سنت سے، پھر اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم سے، پھر لغت عربیہ سے اور پھر اجتہاد اور قوت استنباط سے کرتے تھے۔ ذیل میں ان سب مناہج کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
۱۔ قرآن کی قرآن ہی سے تفسیر
اس باب میں بھی تابعین مفسرین کے متعدد طریق تھے۔ ان میں سے چند پیش خدمت ہیں:
(الف) قرآن کریم کے نظائر:…… جیسے قرآن کریم کی ایک آیت کی تفسیر ایک ایسی دوسری آیت سے کرنا جس میں ویسا ہی مضمون مذکور ہو، اگرچہ دونوں آیتوں کے الفاظ ایک دوسرے سے مختلف ہی ہوں۔ حضرات تابعین نے ایسی تفسیر کثرت کے ساتھ بیان کی ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{فَتَلَقَّیٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ} (البقرۃ: ۳۷)
’’پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے۔‘‘
مجاہد اس آیت کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ ان کلمات کا ذکر اس آیت میں ہے جو یہ ہیں:
{قَالَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ} (الاعراف: ۲۳)
’’دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہو جائیں گے۔‘‘
یہاں تک کہ آدم نے یہ دعا آخر تک پڑھی۔[1]
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًاo} (الاسراء:۱۱۰)
’’اور اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھ اور نہ اسے پست کر اور اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کر۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں عکرمہ اور حسن بصری سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بلند آواز سے نماز پڑھتے تھے تو مشرکین مکہ کو اس سے بڑی تکلیف ہوتی تھی اس بنا پر آپ نے اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے آہستہ آواز سے نماز پڑھنا شروع کر دی اس پر رب تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا:
{وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًاo} (الاسراء:۱۱۰)
[1] تفسیر الطبری: ۱/ ۵۴۵۔