کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 292
کل قیامت کے دن تم اللہ کو کیا جواب دو گے۔ جب اللہ تمہیں اور جن کے خلاف تم گواہی دے رہے ہو اپنے سامنے کھڑا کرے گا۔ اب اللہ تو اس کے مومن ہونے کی گواہی دے گا اور تم اسے کافر کہو گے، اللہ اس کے ہدایت پر ہونے کی گواہی دے گا اور تم اس کے خلاف گمراہی کی گواہی دو گے، اور جب تیری رائے رب کے امر کے خلاف ہوگی تو کدھر جاؤ گے؟ اور جب تیری شہادت رب کی شہادت کے خلاف ہوگی تو کونسی زمین تمہیں پناہ دے گی اور کون سا آسمان تم پر سایہ کرے گا؟ اے خولانی! وہ حروری تمہیں کیا کہتے ہیں؟ خولانی بولا، وہ مجھے کہتے ہیں کہ میں صرف اس کی تصدیق کروں جس کی رائے ان کی رائے کے موافق ہو اور میں صرف ایسے ہی شخص کے لیے استغفار کروں۔‘‘ تب آپ نے فرمایا: ’’اے خولانی! تم نے ان کے بارے میں ٹھیک بتلایا (وہ ایسے ہی باتیں کرتے ہیں) اور یہ ان کی جھوٹی اور باطل محنت ہے۔ رہی ان کی زکوٰۃ کے بارے میں گمراہانہ رائے تو سنو! مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پہنچی ہے کہ رب تعالیٰ نے ایک یمنی عورت کو محض اس بنا پر دوزخ میں ڈال دیا تھا کہ اس نے بلی باندھے رکھی۔[1] (پھر نہ تو خود اسے کچھ کھانے کو دیا اور نہ اس کو چھوڑ ہی دیا تاکہ وہ خود کچھ کھا پی لیتی اور وہ بھوکی مر گئی)۔ کیا وہ انسان جو اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس کو ایک مانتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، کیا اس کو بھوک میں کھلانا اللہ کو زیادہ محبوب ہے یا بھوکی بلی کو کھلانا اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ حالانکہ اللہ تو یہ فرماتا ہے:
{وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo} (الانسان: ۸)
’’اور باوجودیکہ ان کو خود کھانے کی خواہش (اور ضرورت) ہے (پھر بھی اللہ کے لیے) فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔‘‘
رہا ان کا یہ گمراہ کن قول کہ استغفار صرف انہیں کے لیے کی جائے جس کے نظریات ان کے نظریات کے ہم آہنگ ہوں تو کیا وہ بہتر ہیں یا فرشتے جن کے بارے میں رب تعالیٰ یہ فرماتے ہیں:
{وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ} (الشوریٰ: ۵)
’’اور جو لوگ زمین میں (بستے) ہیں ان کے لیے معافی مانگتے رہتے ہیں۔‘‘
اور اللہ کی قسم! فرشتوں کو جب تک اس بات کا حکم نہ ملا ہو وہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ فرشتے تو ایسے ہیں:
{لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَ ہُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَo} (الانبیاء: ۲۷)
’’اور فرشتے اللہ کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے، اور اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔‘‘
اور ایک دوسری جگہ فرشتوں کے استغفار کی تفسیر یوں آتی ہے:
{وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا} (الغافر: ۷)
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۲۲۴۲۔